Monday 12 December 2016

چنگاری

چنگاری

‎میرا نام نبیل ہے عمر سترہ سال ہارڈویئر سٹور پر چچا خادم کیلئے کام کرتا ہوں۔ اگرچہ عمر زیادہ نہیں لیکن حالات کی سختیوں اور کم عمری کی محنت مزدوری کی وجہ سے ایک مضبوط جسم کا مالک ہوں۔ خادم چچا میرے کوئی رشتہ دار نہیں ہیں، لیکن اُن کے ساتھ کام کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں اسی لیئے میں انہیں چچا کہتا ہوں۔ کوئی تین سال پہلے جب میں صرف چودہ سال کا تھا تو ان کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔ تب سے اب تک پوری دیانت داری اور محنت سے کام کرنے ہی کی وجہ تھی کے چچا کی شفقت ہمیشہ شاملِ حال رہی اور مجھ پر اُن کا اعتماد بھی مثالی تھا۔
‎خادم چچا کی فیملی کوئی زیادہ بڑی نہیں تھی، دو بیٹیاں ایک بیٹا اور بیوی، کاروبار اچھا چل رہا تھا یہی وجہ تھی کے اُن کے گھر میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ مجھے ان کے گھر آنے جانے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، بلکہ گھر کیلئے تمام سودا سلف میں ہی پہنچا کر آتا تھا۔ اور گھر سے دوپہر کا کھانا بھی میں ہی لے کر دکان پر آتا تھا۔ یعنی چچا خادم کے گھر میں میرا آنا جانا ایک فیملی ممبر کی ہی طرح تھا۔ چچا خود تو قریب ساٹھ سال کی عمر کے تھے جبکہ چچا کی بیوی پینتیس چالیس کے درمیان تھیں، ان کی بڑی بیٹی کی عمر چودہ سال چھوٹی گیارہ اور سب سے چھوٹا بیٹا تھا جس کی عمر پانچ سال کے قریب تھی۔ میرا ہر روز کا معمول تھا کہ میں گھر کیلئے تمام سودا سلف لے کر جاتا اور واپسی پر آتے ہوئے گھر سے کھانا لاتا۔ جب سے میں نے یہاں کام شروع کیا تھا یہ معمولات ایسے ہی چلے آ رہے تھے۔ اور شائید ایسے ہی چلتے رہتے لیکن ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ اس نے ان معمولات میں تبدیلی پیدا کی اور ایک نیا رخ اختیار کیا۔ ہوا کُچھ یوں کے میں معمول کے مطابق سودا سلف لیئے چچا خادم کے گھر پہنچا تو میرے دو تین دفعہ دستک دینے کے باوجود کسی نے نہ تو جواب دیا اور نہ ہی گیٹ کھولا۔ میں نے گیٹ کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ لاک نہیں تھا اس لیئے کھلتا چلا گیا۔ میں گیٹ سے اندر داخل ہو گیا اور گیٹ کو ویسے ہی بند کر دیا۔ چونکہ میرا گھر میں آنا جانا تھا اسی لیئے میں بلا جھجھک باورچی خانے کی طرف سامان رکھنے کے لیئے آگے بڑھا، میں ابھی باورچی خانے کے دروازے کے قریب ہی پہنچا تھا کے مجھے باورچی خانے کے دوسری جانب بنے غسل خانے سے سسکاریوں جیسی ہلکی آواز نے روک لیا۔ میں نے اُس جانب دیکھا تو ہکابکا رہ گیا۔ غسل خانے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور چچی پوری ننگی کھڑی اپنے ہاتھوں سے بڑی تیزی سے اپنی چوت کو مسل رہی تھی۔ اور یہ سسکاریاں چچی کے ہی منہ سے نکل رہی تھیں۔ اور اس کی حالت کسی نشئ کی سی ہو رہی تھی ۔ بالکل دیوانگی کی سی حالت اور دنیا و مافیا سے بے خبر مجھ پر تو جیسے سکتہ سا چھا گیا ہو، میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا جبکہ باقی سارا جسم بھی پتھر کی طرح ساکت، ایسا منظر وہ بھی حقیقی اور اتنے قریب سے میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چچی کی سسکاریاں اس کے اچھلتے دودھ اور جھٹکے لیتی گانڈ میرے جسم کو آگ لگانے کیلئے یہ سب کافی تھا۔ میرے کان اور ماتھا انگاروں کی طرح تپنے لگے جبکہ مجھے میری ٹانگوں کے بیچ کوئی شہسوار انگڑائیاں لیتا محسوس ہوا۔ پتہ نہیں میں کتنی دیر اسی کیفیت میں بُت بنا کھڑا رہا۔ ہوش تب آیا جب سامان کے بیگ میرے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرے۔ تبھی شائید چچی نے بھی میری طرف دیکھا تھا۔ میں نے جلدی سے سامان سمیٹا اور کچن میں آ گیا۔ سامان رکھ کر میں ادھر کچن میں ہی کھڑا ہو گیا۔ اب مجھ پر خوف طاری ہونے لگا تھا اور خوف کی وجہ سے مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔
‎میں بہت ڈرا ہوا تھا، اچانک مجھے لگا کوئی میرے قریب آ کر کھڑا ہوگیا ہے۔ میں نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو چچی میرے قریب کھڑی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے گیلے جسم پر ہی شائید قمیض پہن لی تھی جس وجہ سے اُن کی قمیض گیلی ہو کر اُن کے جسم سے ہی چپک کر رہ گئی تھی۔ جب میں نے اُنہیں اپنے قریب دیکھا تو میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں روتے ہوئے اُن سے معافی مانگنے لگا۔ کہ جو کچھ بھی ہوا وہ انجانے میں ہوا اس میں میری غلطی یا خواہش نہیں تھی۔ چچی نے ایک ہنکارا بھرا اور میرے کپکپاتے جسم کا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کہا ، " اچھا غلطی سے ہوا ہے, لیکن تیرا لنڈ تو ابھی بھی اکڑ کے کھڑا ہے۔" چچی کے مُنہ سے لفظ لنڈ کا سُننا میرے لیئے عجیب تو تھا ہی لیکن اُن کی بات میں بھی صداقت تھی، میرا لنڈ واقعی تن کر کھڑا تھا۔ میں تقریباً گڑ گڑاتے ہوئے اُن سے معافی مانگنے لگا اور انہیں یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا کہ اس میں میری بالکل بھی مرضی شامل نہیں تھی ۔لیکن چچی شائید کُچھ اور منصوبہ بندی کر چُکی تھی۔ مجھے لگا کے شائید وہ میری ایسی حالت سے لُطف اندوز ہو رہی ہے۔ اچھا تیری مرضی نہیں تھی نا تو پھر یہ بتا کے یہ کیوں اکڑا ہوا ہے۔ چچی نے اپنے ہاتھ سے میرے لنڈ کو چھوتے ہوئے کہا۔ میں کیا جواب دیتا مجھے خود معلوم نہیں تھا کے اس کی ایسی حالت کیونکر ہو گئی ہے۔ میں تو بس ہاتھ جوڑے چچی کے قدموں میں گر سا گیا اور معافی کی التجائیں ہی کرتا رہا۔ چچی نے مجھے کندھوں سے پکڑ کر اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا، تمہیں معافی مل سکتی ہے لیکن ایک شرط پر۔ میں نے آنسووں سے بھری آنکھوں سے چچی کی طرف دیکھا اور منہ سے کچھ نہیں بولا جیسے میں جاننا چاہ رہا ہوں کے معافی کیلئے شرط کیا ہے۔ چچی چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیئے پھر سے بولیں ۔ شرط یہ ہے کے تُم نے یہ جو چیز چھپائی ہوئی ہے باہر نکال کر مجھے دکھاؤ، اُنہوں نے پھر سے میرے لنڈ کو چھوتے ہوئے کہا۔ میں ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا اور پھر سے التجا کرتے ہوئے بولا نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا میں پھر سے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو گیا۔ معافی مانگتے ہوئے میں نے کہا چچی مجھ پر رحم کریں اور انجانے میں جو غلطی ہوئی مہربانی فرما کر معاف کر دیں۔ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہو گی۔ چچی میری جانب سرکتے ہوئے میرے ہاتھ پکڑ کر بولیں، اگر معافی چاہئیے تو میں جو کہتی ہوں ویسا کرو، اگر نہیں کرو گے تو تمہیں معافی نہیں ملے گی۔ میرے جسم سے تو جیسے روح ہی نکل رہی تھی بس روئے جا رہا تھا اور ڈر سے پورا جسم لرز رہا تھا۔ چچی پھر بولیں ، اصل میں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ تمہارے پاس یہ جو چیز ہے کیسی ہے اور میرے پاس ایسی چیز کیوں نہیں۔ دیکھو میں جھوٹ نہیں کہتی میرے پاس ایسی چیز نہیں ہے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ دیا جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے لنڈ کو پکڑ لیا۔ مجھے بس دکھا دو تو تمہیں معاف کر دوں گی۔میں اتنا بچہ تو نہیں تھا جو چچی کی اس بات کا یقین کر لیتا کہ انہیں لنڈ اور چوت کا علم نہیں، اور وہ جانتی نہیں کا مردوں کا لنڈ ہوتا ہے اور عورتوں کی چوت، میں جان چکا تھا کہ چچی میرے ساتھ کوئی کھیل کھیلنا چاہ رہی ہے۔ میں التجائیں کرتا رہا اور وہ اپنی بات پر اصرار کرتی رہیں۔ اچانک چچی نے کہا " تو میں جو کہتی ہوں وہ تم نہیں مانو گے۔ چلو ٹھیک ہے نہ مانو لیکن جان لو کے میں بھی تمہیں معاف نہیں کروں گی، چچی بدستور میرے لنڈ کو پکڑے ہوئے تھی۔ اور اب انہوں نے میرے لنڈ کو اپنے ہاتھ کی مُٹھی میں لے کر رگڑنا شروع کر دیا تھا۔ میں جیسے بُت بن گیا تھا۔ میرے جسم کی تمام حرکت جیسے تھم سی گئی تھی۔ میں اب انکار و اقرار کی حدود سے آگے نکل آیا۔ چچی نے بھی جیسے اپنے تجربے کی بنا پر اندازہ کر لیا تھا کے میری مدافعت کا بند ٹوٹ چُکا اسی لیئے انہوں نے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ پر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے میری شلوار کھول دی جو کہ سیدھی میرے پاؤں پر گری۔ چچی نے میری قمیض کا پلّو اُٹھا کر میرے کندھے پر ڈال دیا میں ننگا ہو چکا تھا، چچی میرے لنڈ کو ایسے للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے کئی سالوں کا بھوکا کھانے کو، " ارے نبیل تُمہارا لنڈ تو بہت شاندار ہے " چچی کی انتہائی للچائی ہوئی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی " اسے تو چومنے کو من کرتا ہے،" چچی یہ کہتے ہوئے گھٹنوں کے بل ہو گئی اور میرے انکار یا اقرار سے پہلے ہی میرے لنڈ کو چوم لیا۔ میرا جسم جو چنگاریوں کی طرح سُلگ رہا تھا ایک دم سے آگ کے الاؤ کی طرح دہکنے لگا۔ لیکن میں پھر بھی بُت کی طرح ساکت کھڑا رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ میں نے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا اور میرا رونا بند ہو گیا تھا۔ چچی نے دو تین بوسے اوپر تلے میرے لنڈ پر کیئے۔ پھر اپنی زبان نکال کر عین میرے لنڈ کے سوراخ پر لگا دی پھر آہستہ آہستہ ٹوپے پر گُھمانا شروع کر دی۔ جب ٹوپا چاروں طرف سے گیلا ہو گیا تو دھیرے دھیرے اسے ہونٹوں کے حصار میں کسنا شروع کر دیا۔ وہ آہستہ آہستہ ٹوپے کو منہ کے اندر لے رہی تھی جبکہ مجھے لگا رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ آسمان کی طرف اُٹھ رہا ہوں۔ میں ایک ایسے نشے کے سحر میں جکڑا جا رہا تھا جسے نہ میں پہلے جانتا تھا اور نہ ہی پہلے میں نے چکھا تھا۔
‎چچی کے اس طرح لنڈ کو منہ میں لینے اور بعد میں اُس کے بھرپور چوسے لگانے سے میرے نشے میں بے انتہا اضافہ ہو گیا۔ اب تو میرا جی چاہ رہا تھا کے اپنے لنڈ کو چچی کے گلے کے اندر تک پہنچا دوں۔ میرا خوف بالکل ختم ہو چکا تھا اور میں اس نئے کھیل سے لُطف لینے لگ گیا تھا۔ چچی میرے لنڈ کو چُوس ہی رہی تھی اور ابھی زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی تھی کے میرے لنڈ نے پانی چھوڑ دیا۔چچی نے فوراً میرے لنڈ کو منہ سے نکالا اور لنڈ سے نکلےتمام پانی کو باہر تھوکتے ہوئے بولی " اتنی جلدی چھوٹ گئے، پہلے کبھی ایسا کام نہیں کیا کیا؟" نہیں کیا بلکہ مجھے تو آج پہلی بار پتہ چلا ہے کے میرے لنڈ سے بھی چھوٹ نکلتا ہے، میں نے بھی جھجھکتے ہوئے جواب دیا
‎" چل کوئی بات نہیں میں تجھے آج سب کچھ سکھا بھی دوں گی اور دکھا بھی دوں گی،" یہ کہتے ہوئے چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے کمرے میں لے آئی، میں بھی کسی غلام کی طرح اس کے ساتھ کمرے میں جا کر ایک کونے میں لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ارے وہاں کیوں کھڑے ہوتے ہو ادھر میرے پاس آؤ ، یہ کہتے ہوئے چچی نے مجھے تقریباً گھسیٹ ہی لیا، میرا لنڈ اب پہلے جیسا اکڑا ہوا نہیں تھا، شائید پانی نکل جانے کی وجہ سے اس کا تناؤ کم ہو گیا تھا۔ چچی نے اسے دوبارہ سے چھیڑنا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی مجھے قمیض اتارنے کا کہا۔ میں نے بغیر کچھ کہے قمیض اتار کر ایک طرف اچھال دی۔ میں بالکل ننگا کھڑا تھا اور چچی کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں جیسے کسی بچے کو کھیلنے کیلئے اس کا من پسند کھلونا مل جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے چچی بھی ایسے ہی میرے ساتھ کھیلنا چاہتی تھی۔ اور میں اب مکمل اس کی دسترس میں تھا۔ چچی نے مجھے کہا کے میں اس کے کپڑے اتاروں میں نے آگے بڑھ کے پہلے اس کی قمیض اور بعد میں شلوار اُتار دی۔کسی بھی عورت کو اس طرح سے ننگا کرنا میری زندگی کا پہلا اتفاق تھا۔ برا اور پینٹی اُتار کر میں نے چچی کو بالکل ننگا کر دیا ۔ چچی مجھ سے دگنی عمر کی ضرور تھی لیکن اس نے خود کو بڑے سلیقے سے سنبھال رکھا تھا، اس کے گول مٹول ممے کسی بھی دوشیزہ سے کم نہ تھے۔ نہ تو چچی کا پیٹ بھدا تھا اور نہ ہی اس کی گانڈ بےہنگم پھیلی ہوئی تھی۔ بلکہ سچ یہ ہے کے وہ اس وقت بھی نہیں لگتا تھا کے تین بچوں کی ماں ہے اور اس کی بڑی بیٹی چودہ سال کی ہے۔ اس کا رنگ بھی خوب نکھرا ہوا اور جلد بے داغ تھی۔ چچی جو مسلسل میرے لنڈ سے کھیلے جا رہی تھی اور اب دوبارہ سے اسے کھڑا کر چکی تھی۔ وہ کبھی میرے لنڈ کو مُٹھ مارنے لگتی اور کبھی منہ میں لے کر چوسنے لگتی۔ جب لنڈ مکمل کھڑا ہو گیا تو چچی نے مجھے لیٹنے کیلئے کہا میں بلا چوں و چراں بیڈ پر لیٹ گیا۔ تو چچی نے میرے سارے جسم کو چاٹنا شروع کر دیا وہ مجھے سر سے پاؤں تک چاٹ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لیٹ گئی اور مجھے کہا کہ میں اُسے اسی طرح سے چاٹوں جیسے وہ مجھے ابھی چاٹ رہی تھی۔ میں تو تھا ہی غلام جیسے جیسے وہ کہہ رہی تھی ویسا میں کیئے جا رہا تھا۔ میں اب اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھے تو دل چاہا کے اپنے ہونٹ بس یہیں ٹکائے رکھوں۔ جب گالوں پر بوسہ لیا تو اس کی اپنی لذت تھی دل نہیں کیا کہ ہونٹ ہٹاؤں لیکن جب اس کے ہونٹ چُوسنا شروع کیئے تو ان سے ایسی مٹھاس کا ذائقہ ملا جو شہد میں بھی نہ ہو۔ نرم گُداز مموں کو تو کھا جانے کو جی چاہا۔ غرض میں جہاں جہاں بھی ہونٹ اور زبان لگا رہا تھا مجھے نئے ذائقے اور لذت سے آگہی ہو رہی تھی۔میں چومتے چاٹتے جب ناف تک پہنچا تو چچی نے میرے سر کو دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اپنی ٹانگوں کے درمیاں میرے منہ کو بالکل اپنی چوت کے اوپر رکھ دیا اور کہا جیسے میں نے تمہارے لنڈ کو چاٹا تھا ویسے ہی میری چوت کو چاٹو۔ میں تو غلامی قبول کر چکا تھا انکار بھلا کیسے کر سکتا تھا۔ میں نے دونوں ہونٹ چوت پر رکھ دیئے اور چومنے لگا۔ ایسے نہیں زبان سے چاٹو، چچی نے نیچے سے کہا تو میں نے زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔ ہاں ایسے ہی، شاباش تیز تیز چاٹو اور تیز ہاں ہاں ایسے ہی وہ نیچے سے گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنی چوت میرے منہ پر رگڑ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ کسی کمانڈر کی طرح مجھے ہدایات بھی دے رہی تھی۔زبان چوت کے سوراخ میں ڈالو، ہاں ایسے ہی، ہاں ٹھیک ہے بالکل ، اب اسے اندر باہر کرو شاباش تیز تیز تیز اور تیز آں ہاں آہہہہ اُوووہہہ اففففف شاااااااباااااااششششششش چچی کی آواز اب بکھر رہی تھی۔ اس کی الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے لیکن میں مفہوم سمجھ رہا تھا کے وہ کیا کہہ رہی ہے یا کیا کہنا چاہ رہی ہے۔میں کافی دیر زبان کو چوت کے اندر باہر گھماتا رہا اچانک میرے ہونٹوں نے گرم پانی محسوس کیا تو میں نے سر اٹھا کر چچی کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی جبکہ اس کی بےترتیب سانسوں کی وجہ سے اس کے ممے عجب انداز سے ہل رہے تھے۔ چچی نے ٹشوپیپر دیتے ہوئے مجھے اس کی چوت صاف کرنے کو کہا جب میں اسے صاف کر چکا تو مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا اور کہا نبیل میری چوت سالوں سے پیاسی ہے اسے ایسے چودو کہ اس کی پیاس بجھ جائے۔ پھر خود ہی میرے لنڈ کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی چوت کے ہونٹوں پر رگڑنے لگی۔ ہر رگڑ پر میرا لنڈ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔ کچھ ہی دیر میں میرا لنڈ بےآب مچھلی کی طرح مچلنے لگا تو چچی نے لنڈ کا سر چوت پر رکھ کے کہا نبیل اسے اندر دھکیل دو، میں نے دھکا دیا تو لنڈ اس وادی کی چکنی چپڑی دیواروں سے رگڑ کھاتا اندر تک گھس گیا۔ چوت اندر سے اتنی گرم تھی کہ مجھے لگا میں نے جیسے لنڈ کو شائید لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا ہو۔ لیکن میرا دل پھر بھی چاہا کے میں اسے اور آگے تک لے جاؤں۔ میں کھٹ پُتلی کی طرح چچی کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ وہ جیسے جیسے مجھے کہہ رہی تھی میں ویسا کر رہا تھا۔ اسی کے کہنے پر میں تیزی سے اپنے لنڈ کو اس کی چوت میں تیزی سے کھینچ اور دھکیل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے پوزیشن بدلنے کا کہا تو میں رک گیا۔ چچی نے اپنی دونوں ٹانگیں اُٹھا کر میرے کندھوں پر رکھ دیں اور گانڈ۔ میری ناف تک اٹھا دی اس سے چوت بالکل میرے سامنے آگئی اب میں نے لنڈ چوت پر رکھ کر دبایا تو وہ مجھے زیادہ اندر تک جاتا محسوس ہوا۔ میں نے دوبارہ دھکے لگانے شروع کیئے، تھوڑی دیر میں مجھے لگا جیسے چوت تنگ ہو گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح چکنی بھی نہیں رہی۔میں اسی رفتار سے دھکے لگا رہا تھا۔ مجھے ہر دھکے پر لگتا کے چوت شکنجے کی طرح کسی جا رہی ہے۔ اور ساتھ میں چچی کی آنے والی اونہہہہ آں ہہہہہہہہم کی آوازیں بھی زیادہ اور تیز ہو رہی ہیں۔
‎میرا جوش کافی بڑھا ہوا تھا۔ چچی کی آوازیں اسے اور بڑھا رہی تھیں۔ آہہہہہہ اووووں ہہہہمممم اووووچچ آہہہہہ اووووں ہہہہہمممم نبیل زور سے چودو مجھے آہہہہ آآآں ہہہہممم اووووں میں پیاسی ہوں نبیل میری پیاس بجھا دو، چچی کی سسکارتی آوازیں مجھے تیش دے رہی تھیں، میرا جوش بڑھا رہی تھیں۔ میں زور زور سے چچی کی چوت مار رہا تھا۔ چچی کی چوت سوکھ گئی تھی جس وجہ سے میرا لنڈ چوت میں جکڑ سا گیا تھا۔ لیکن میں رکا نہیں میں اُسی طرح دھکے لگا رہا تھا۔ چچی کی سسکیاں اب ہلکی چیخوں کا روپ دھار چُکی تھیں۔ میرے منہ سے بھی عجیب غراہٹ نما آوازیں نکل رہی تھیں۔ عجیب لُطف تھا جو مجھے حاصل ہو رہا تھا اور شائید چچی مجھ سے بھی زیادہ لُطف اندوز ہو رہی تھی اگرچہ اس کی چیخوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت کرب میں ہے۔ چچی بھی گانڈ ہلا ہلا کر اوپر نیچے کر رہی تھی۔ میرے دھکے چل رہے تھے کہ مجھے لگا جیسے میں آسمانوں میں پہنچ گیا ہوں ۔ جیسے ہواؤں میں تیر رہا ہوں ۔ حقیقت میں میں لُطف کی اس منزل کو بیان ہی نہیں کر سکتا کے میں اُس وقت مزے اور سرور کی کس منزل پر تھا۔ اچانک مجھے لگا چچی کی چوت کی جکڑن کم ہو گئی ہے، اور میرے لنڈ پر گیلے پن کا احساس ہوا یہی وہ وقت تھا جب میرا جوش بھی عروج پر تھا۔ اور پھر میرے لنڈ نے بھی جھٹکے سے لاوا اگلنا شروع کیا اور میں آسمانوں سے دھیرے دھیرے زمین پر آنے لگا۔ میں بیڈ پر گر سا گیا۔ چچی کے چہرے پر مطمئن سی مسکراہٹ تھی۔ مجھے اپنی بانہوں میں لے کر چوم چاٹ رہی تھیں ۔میں کچھ دیر ایسے ہی بےسُدھ پڑے رہنے کے بعد اُٹھ کر کپڑے پہننے لگا تو چچی نے کہا کے جاؤ پہلے غسل کر لو، میں نے غسل خانے میں کا کر ابھی شاور کھولا ہی تھا کے چچی بھی ویسے ہی ننگی اُٹھ کر غسل خانے میں آ گئی، " دونوں مل کر غسل کرتے ہیں مزہ آئے گا" یہ کہہ کر چچی میرے ساتھ ہی چپک کر شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اگرچہ ہمارے سر پر شاور سے پانی گر رہا تھا لیکن پھر بھی جسموں میں حرارت محسوس ہو رہی تھی میرا لنڈ جو مُرجھا سا گیا تھا چچی کے اسطرح چپکنے سے پھر حرکت میں آگیا۔ چچی کے جسم سے بڑی ہی مسحور کُن خوشبو نکل رہی تھی جو میرے رگ رگ میں سما رہی تھی۔ مجھ پر عجب سی مدہوشی چھا رہی تھی۔ چچی نے بھی مجھے گلے لگا کر پھر سے چومنا شروع کر دیا۔ وہ مجھے چومتے ہوئے میری تعریفیں کر رہی تھیں اور اپنے خاوند کو گالیاں دے رہی تھیں، ایسے ہی انہوں نے مجھے بتایا کے کس طرح سے اُنکی شادی اُن سے دُگنی عمر کے مرد سے ہوئی۔ اور کیسے ان کا خاوند بستر پر اُن کے جذبات کا قتل کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہت کم دفعہ ہی ان کو خاوند سے راحت ملی ہے اور بہت ہی کم دفعہ ان کا خاوند سیکس میں ان کو خوش کر پایا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ اب تو چند سالوں سے انہیں چھو بھی نہیں رہا۔وہ باتیں بھی کر رہی تھیں اور اپنے ہاتھوں سے میرے جسم سے بھی کھیل رہی تھیں ۔ میں بھی اپنے ہاتھ ان کی کمر پر انکی گانڈ پر اور ممّوں پر پھیر رہا تھا۔ وہ باتیں کرتے ہوے مجھے بتا رہی تھیں کہ اگر وہ چاہتیں تو کسی غیر مرد سے یارانہ لگا کر اپنی پیاس بجھا سکتی تھیں لیکن جب بھی انہوں نے ایسا سوچا خاندان کی عزت اور ناموس کا معاملہ آڑے آ جاتا۔ دوسرا انہیں اس بات کا بھی ڈر تھا کے ان کے جسم سے کھیلنے والے نے ہی ان کو بدنام کر دیا تو وہ کہیں کی نہیں رہیں گی۔ یہی وجہ تھی کے انہوں نے ایسی کوئی حد پار نہیں کی تھی جو اُن کی بدنامی کا باعث ہوتی بلکہ وہ اپنی پیاس بجھانے کیلئے خود ہی کئی حربے استعمال کرتی تھیں۔ جیسے آج بھی وہ من کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے اپنے ہی ہاتھ استعمال کر رہی تھیں۔ میں باتیں تو سُن ہی رہا تھا پر میں چچی کے پورے بھیگے جسم کی پیمائش بھی کر رہا تھا۔میرے ہاتھ کبھی چچی کی گانڈ کو سہلاتے اور کبھی اُن کے نرم گُداز ممّوں سے کھیل رہے ہوتے۔ چچی نے میرے ہونٹ اپنے منہ میں لے کر چوستے ہوئے کہا، " نبیل تمہارے لنڈ نے مجھے خرید لیا ہے میں آج سے تمہاری لونڈی ہوں مجھے جب بھی اور جہاں بھی کہو گے میں تمہارے لنڈ کیلئے حاضر ہو جاؤں گی " یہ کہتے ہوئے چچی نے میرے اکڑے ہوئے لنڈ کی طرف دیکھا تو بولی "ارے نبیل تُمہارا لنڈ تو پھر سے کسی چاق وچوبند فوجی کی طرح تن کے کھڑا ہے" "اسے تو چومنے کو من کرتا ہے، جی کرتا ہے اسے چومتی ہی رہوں" یہ کہتے ہوئے چچی گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئی اور میرے لنڈ کو منہ میں لے لیا۔ میں بھی چچی کے منہ میں ہی لنڈ کو دھکے دینے لگا۔ میرے اس طرح منہ کے اندر چودنے سے لنڈ چچی کے گلے تک پہنچ رہا تھا۔ جس سے چچی کی حالت عجیب سی ہوگئی تھی ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا تھا جبکہ چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ میرا لنڈ اکڑ کر سخت پتھر ہو گیا تو چچی نے کہا میں گھوڑی بنتی ہوں تم پیچھے سے کھڑے ہو کر میری چوت کو چودنا۔ یہ کہتے ہوئے چچی نے اپنے دونوں کندھے فرش پر ٹکا دیئے اور اپنی گانڈ کو اتنا اوپر اٹھایا کے ان کی چوت بالکل میرے سامنے میرے لنڈ کے برابر آ گئی، میں نے لنڈ کو چوت پر رکھا اور دونوں ہاتھ گانڈ پر ٹکا کر ہلکی سا دھکا دیا تو لنڈ چچی کی چوت میں گھستا چلا گیا۔ میں نے ہلکے دھکوں سے شروع کیا اور پھر دھیرے دھیرے رفتار تیز کر دی۔ چچی مزے لے رہی تھی، پھر جیسے جیسے رفتار بڑھتی گئی اور ٹائم گذرتا گیا چچی کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہوتی گئیں ۔میں کبھی چچی کے بازو پیچھے موڑ کر پکڑ لیتا کبھی ان کی کمر پر لیٹ کر ممّوں کو پکڑ لیتا اور کبھی دونوں ہاتھ گانڈ پر جما کر دھکے دیتا۔ مجھے یقین ہے کے چچی دو دفعہ چوت سے پانی چھوڑ چکی تھی جبکہ میں تسلسل سے دھکے پہ دھکے دیئے جا رہا تھا۔ اب چچی باقاعدہ گڑگڑا رہی تھی اور التجا کر رہی تھی کے میں جلدی سے چھوٹ دوں ۔لیکن مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ جلدی سے کیسے چھوٹا جا سکتا ہے۔ میں تو بس دھکے پر دھکہ دیئے جا رہا تھا۔ایسے میں ہی جب میں نے دھکے دیتے ہوئے لنڈ کو پیچھے لا رہا تھا تو چچی کی چوت سے فوارے کی مانند پانی ابل پڑا۔ جس سے میری ٹانگیں لتھڑ گئیں چچی کی بھی ٹانگوں سے ہوتا ہوا نیچے فرش تک پھیل گیا۔ چچی بہت پر سکوں حالت میں آگئی تھی۔ جبکہ مجھے سکون آنا ابھی باقی تھا ۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب میرے لنڈ نے بھی لاوا اگل دیا۔ کافی دیر ہم یونہی پڑے اپنی سانسیں بحال کرتے رہے۔ پھر اُٹھ کر نہانے لگے ۔ نہاتے ہوئے میں نے چچی سے پوچھا کے آپ کو مجھ سے ڈر نہیں لگا کہ میں بھی آپ کو بدنام کروں گا اور آپ کی عزت خراب کر دوں گا جو آپ نے میرے ساتھ یوں سیکس کر لیا؟
‎چچی نے کہا" نہیں لگا کیونکہ تم رتبے اور عمر دونوں میں مجھ سے کم ہو اور اگر تم تہمت لگاؤ گے بھی تو تمہاری بات کے بجائے میری بات سُنی جائے گی۔اور میں کہہ دوں گی کہ تُم بہتان تراشی کر رہے۔ اور سب سے اہم بات وہ یہ کے تُمہارا لنڈ دیکھ کر مجھے کنٹرول ہی نہیں رہا کہ میں خود کو سنبھال پاتی اور اس نے مجھے بدنامی کے ڈر سے بھی آزاد کرا دیا۔ چچی نے میرے لنڈ کو چومتے ہوئے کہا کہ "اس کیلئے اگر تم مجھے ساری دنیا میں بھی بدنام کر دو تو تب بھی میں سمجھوں گی کہ سودا نقصان میں نہیں ہوا،"۔
غسل سے فارغ ہوئے تو بہت دیر ہو چُکی تھی۔ مجھے اب ڈر لگ رہا تھا کہ چچا کو کیا کہوں گا کہ اتنی دیر کہاں لگا دی، میں نے اپنے ڈر کا ذکر چچی سے بھی کیا اور کہا کہ چچا خادم اتنی دیر لگانے کا پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا؟ چچی کافی ذہین تھی فوراً کہانی تیار کر لی کہ اگر چچا پوچھے تو اسے کہہ دینا کہ چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہوں نے دوائی لینے بھیج دیا تھا اور کھانا بھی تیار نہیں تھا جس وجہ سے دیر ہو گئی، وجہ اور کہانی معقول تھی۔ کھانا لے کر دکان پر پہنچا تو گاہکوں کا کوئی اتنا رش نہیں تھا۔ چچا کے پوچھنے پر پہلے سے تیار کی ہوئی کہانی سُنا دی۔ چچا نے بھی اسے ہی سچ سمجھا اور کھانا لے کر کھانے لگے۔ میں آج ہونے والے اس واقعے سے سرشار تھا۔ خود میں عجیب سی تبدیلی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اپنا آپ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ میں خود کو ایک لڑکے کے بجائے پختہ کار مرد کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ جبکہ چچا خادم پر نظر جاتی تو خود سے شرم آتی کہ میں نے ان سے نمک حرامی کی ہے۔ چچی کا سراپا اور اس واقعے کے تمام پہلو کسی فلم کی طرح دماغ میں چل رہے تھے۔ باقی تمام وقت کام کے ساتھ یہی خیالات میرے دماغ پر حاوی رہے۔ اگلے دن کھانا لینے گیا تو چچی کافی کھلی کھلی اور خوش دکھائی دے رہی تھی۔ آج ان کا روپ پہلے سے زیادہ حسین لگ رہا تھا۔ میں نے کوئی زیادہ بات نہ کی بلکہ زیادہ دیر خاموش ہی رہا۔ مجھے چچا خادم کے ساتھ بد اعتمادی اور بد دیانتی پر پشیمانی بھی تھی شائید یہی وجہ تھی کہ میں چچی سے بات کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔ جبکہ چچی مجھے بڑے پیار اور محبت سے مُسکراتے ہوئے دیکھے جا رہی تھی۔ میں کھانا لے کر نکلنے لگا تو چچی نے بنا کوئی بات کیئے مجھے بازوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور پھر اپنے دونوں بازوؤں کے حصار میں لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ چچی کے کے مموں کی گُداز نرمی میرے سینے میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی، میرے تن بدن کو دہکانے کیلئے چچی کا یہی عمل کافی تھا۔ "کیا بات ہے میرا راجہ آج اتنا افسردہ کیوں ہے" چچی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو جواب میں صرف اتنا کہہ پایا کہ کوئی بات نہیں ۔ چچی نے میرے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا " نبیل کل تم نے مجھے جو راحت دی میں اس کیلئے تمہاری شکرگذار ہوں۔ اور دیکھو تم کچھ بُرا مت سوچو تُم جوان ہو اور سمجھدار بھی۔ تُم نے میری ضرورت پوری کی اور میں تمہاری ضرورتوں کا خیال رکھوں گی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے چچی نے پانچ سو کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیا۔ میں نے معنی خیز نظروں سے چچی کی طرف دیکھا تو چچی نے کہا " ہم نے بس ایک دوسرے کے بارے میں سوچنا ہے، اور کسی دوسری سوچ کو دماغ میں جگہ نہیں دینی۔ تُم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟ چچی نے سوالیہ انداز سے بات کہی تو میں نے نہ سمجھتے ہوئے بھی ہاں جی کہہ دیا۔ میں جانتی ہوں تُم اتنے خاموش کیوں ہو چچی نے پھر سے بولنا شروع کیا تو میں صرف ان کے چہرے کی طرف دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہا تھا۔ " نبیل تم اس بڈھے ( چچا خادم ) کیلئے زیادہ مت سوچو " مجھے لگا چچی واقعی میرے دل تک پہنچ گئی ہے۔ اور اسے معلوم ہو گیا ہے کہ میں چچا خادم سے بددیانتی پر شرمندہ ہوں ۔ چچی نے مجھے اس شرمساری سے نکالنے کیلئے کافی باتیں کیں۔ اور مجھے اس بات پر تقریباً قائل کر لیا کہ جو کچھ ہمارے درمیان ہوا وہ ہماری ضرورت تھی جس کو چچا خادم پورا نہیں کر سکتا تھا اس لیئے ہم نے اس سے بددیانتی نہیں کی، ہر انسان اپنے دفاع کیلئے دلیلیں بنا لیتا ہے اور اسی طرح ہم نے بھی اپنے اس عمل کیلئے کچھ دلیلیں بنا لیں تاکہ اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکیں اور اس گھناؤنے کھیل کو جاری رکھ سکیں۔ اس کے بعد ہمارا معمول ہو گیا تھا کہ میں جب بھی کھانا لینے جاتا ہم خوب مستی کرتے۔ چچی میرے پہنچنے سے پہلے ہی تیار ہوتی میرے جاتے ہی ہم سیکس کا مزا لیتے اتنے دنوں میں میں کئی بار چچی کی چوت مار چُکا تھا۔ لیکن پہلے دن کی طرح ہم زیادہ وقت نہیں لگاتے تھے۔ آدھا پونہ گھنٹا سیکس کرتے اور میں کھانا لے کر دکان پر چلا آتا۔ مجھے بھی عادت سی ہو گئی تھی میں انتظار کرتا کہ کب وقت آئے اور میں کھانا لینے کیلئے جاؤں ۔ ایک دن کھانا لینے گیا تو چچی نے کہا کہ نبیل ایسے مزا نہیں آ رہا کسی دن وقت نکالو تاکہ ہم پھر سے بھرپور سیکس کا مزا لے سکیں۔ میں کیا کہتا میں نے اپنی مجبوری بتا دی کہ میں زیادہ وقت کیسے نکال سکتا ہوں، میں اس معاملے میں مجبور ہوں تو چچی نے کہا کہ چلو پھر میں ہی کوئی ترکیب کرتی ہوں۔ اس دن بھی ہم نے سیکس کیا۔ دوسرے دن میں کھانا لینے گیا تو چچی کافی خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے۔ اگر تم تین چار دن کیلئے دکان کی ذمہ داری سنبھال لو اور ہمارے گھر آکر رہ لو تو میں تمہارے چچا کو دوسرے شہر بھیج سکتی ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے۔ تو چچی بتانے لگی کہ چچا خادم کی بہن پچھلے کئی دنوں سے دوسرے شہر میں کافی بیمار ہے۔ لیکن چچا دکان اور گھر کی مجبوری کی وجہ سے اس کی تیمارداری کو نہیں جا سکا۔ اگر تُم دکان اور گھر میں رہنے کی حامی بھرو تو میں تمہارے چچا سے بات کروں۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دکان کا سارا کام میں بخوبی جانتا تھا اور گھر میں رہنا بھی میرے لیئے دشوار نہیں تھا۔ میں نے چچی سے حامی بھر لی تو چچی نے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے چچا سے رات کو بات کروں گی لیکن وہ اگر کل تم سے پوچھے تو اسے ظاہر مت ہونے دینا کہ تم اس بات سے پہلے سے باخبر ہو، بلکہ ایسے ظاہر کرنا کہ یہ بات ابھی تمہارے سامنے کی جارہی ہے۔ آپ فکر نہ کریں میں ایسا ہی کروں گا۔
  دوسرے دن دکان پر چچا نے مجھے پاس بلا کر پوچھا کہ میں ان کی غیر حاضری میں دکان چلا سکوں گا تو میں نے چچا کو یقین دلایا کہ فکر کی بات نہیں کام کو ایمانداری سے سنبھالوں گا۔ چچا بس تسلی کیلئے ہی پوچھ رہے تھے ویسے وہ جانتے تھے کہ میں تمام کام سمجھتا ہوں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ " نبیل پُتر دکان کی اتنی پریشانی نہیں ہے۔ اصل میں گھر میں بھی کسی مرد کا ہونا ضروری ہے، میں تین چار دن کے لیئے اگر کہیں جاؤں تو کیا تُم ہمارے گھر رہ لو گے؟" چچا نے گویا اپنی اصل پریشانی بیان کی، میں چچا کے چہرے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا چچا دوبارہ بول پڑے ۔ " اگر تمہارے گھر والوں کو اعتراض نہ ہو تو میری غیر موجودگی میں تم رات ہمارے گھر ہی سو لینا۔" " چچا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ میرے گھر والوں کو بھلا کیا اعتراض ہو گا۔ آپ حکم کرو بندہ ہر حکم کی تعمیل کیلئے حاضر ہے۔" میں نے چچا کو مطمئن کر دیا۔ اور چچا کے چہرے سے بھی لگا جیسے کوئی بوجھ ان کے سر سے اُٹھ گیا ہو۔ سب کچھ سمجھانے کے بعد چچا نے بتایا کہ وہ کل اپنی بہن کی تیمارداری کیلئے روانہ ہو جائیں گے اور جب تک وہ نہ آئیں میں ان کے گھر ہی رکوں گا۔ اس دن میں کھانا لینے گیا تو چچی کو خوشخبری سنائی اور بتایا کہ چچا سے میری کیا بات ہوئی ہے۔ چچی تو خوشی سے پاگل ہو گئی اور اسی خوشی کے مارے اس نے مجھے بے تحاشہ چوم لیا۔ اس بوس و کنار اور چچی کے جسم کی گرمی نے میرے تن بدن میں آگ دہکا دی لیکن میں نے اور چچی نے فیصلہ کیا کہ اس آگ کو کل تک بڑھکنے دیتے ہیں اور کل جب چچا چلے جائیں گے تو اس آگ کو خوب ٹھنڈا کریں گے۔
شام کو دکان بند کرنے کے بعد چچا نے دکان کی چابیاں میرے حوالے کیں اور بتایا کہ وہ تین دن تک اپنی بہن کے پاس رہیں گے اور چوتھے دن واپس آئیں گے۔ اور مجھے ہدایت کی کہ کل اپنے گھر والوں کو بتا آؤں کہ میں اگلی تین راتیں چچا کے ہاں ہی ٹھہروں گا۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ گھر جاتے ہوئے آنے والے چند دنوں کے خیالات میرے دماغ میں گردش کرتے رہے۔ انہیں خواب و خیال کی دنیا میں مگن رات کو اچھی طرح سے سو بھی نہ سکا۔ صُبح نہا دھو کر تیار ہوا اور دو جوڑے کپڑوں کے بیگ میں ڈالے۔ تمام دن دکان پر رہا۔ دوپہر کو کھانا بھی قریب کے ایک ہوٹل سے منگوا لیا۔ شام دکان بند کرکے چچا کے گھر پہنچا تو چچی ڈرائنگ روم میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جبکہ اُن کی دونوں بیٹیاں فائزہ اور مائرہ فرش پر بیٹھے سکول کا کام کرنے میں مصروف تھیں۔ اور لڑکا اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ چچی کافی خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے پہلے تو دکان کا سارا حساب کتاب بتایا اور سبھی رقم چچی کو دی، پھر چچی نے میرے لیئے کھانا گرم کیا اور ٹیبل پر رکھا۔ میں کھانا کھا چُکا تو چچی کے قریب دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔ چچی مجھے کہہ رہی تھی کہ اپنا ہی گھر سمجھوں ۔ فائزہ چچی کی بڑی بیٹی بار بار اپنی کتابوں سے نظر اُٹھا کر دیکھ رہی تھی۔ اگرچہ تمام بچے مجھے جانتے تھے اور مجھ سے کافی مانوس بھی تھے لیکن آج پہلی بار میں یوں اس وقت اُن کے گھر آیا تھا۔ اسی لیئے شائید انہیں کچھ حیرانی تھی۔ فائزہ چودہ برس سے کچھ ماہ اوپر کی تھی اور کافی سمجھدار بھی۔ اسی لیئے اسے پتہ تھا کہ اُن کا باپ گھر نہیں ہے اور میں ان کے گھر رہوں گا جبتک کہ ان کا باپ واپس نہیں آ جاتا۔ اسی لیئے وہ نارمل ہی دکھائی دے رہی تھی جبکہ مائرہ نے ماں سے کافی سوال کیئے کہ میں آج ان کے گھر کیوں آیا ہوں اور یہاں کیوں رہوں گا۔ چچی نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے تھے۔ اسی لیئے وہ بھی اب مطمئن دکھائی دے رہی تھی۔ فہد چچی کا بیٹا کھلونے چھوڑ کر میری گود میں آ گیا اور مجھ سے کھیلنے لگا۔ اور کھیلتے کھیلتے میری گود میں ہی سو گیا۔ چچی اسے میری گود میں سے لینے کیلئے میرے قریب آکے جھُکیں تو ان کے ممے میرے منہ سے ٹکرا گئے۔ میری نظر غیر ارادی طور پر فائزہ کی طرف اُٹھ گئی کہ کہیں اس نے اپنی ماں کا میرے اتنے قریب جھکنا دیکھا تو نہیں۔ لیکن وہ اپنے کام میں مصروف تھی۔ چچی نے بڑی اچھی پرفیوم لگا رکھی تھی۔ جس کی خوشبو نے مجھے معطر کر دیا۔ چچی فہد کو اُٹھاتے ہوئے بولیں، "نبیل تم بھی آؤ تمہیں تمہارے سونے کی جگہ دکھا دوں۔" میں خاموشی سے اُٹھا اور چچی کے پیچھے چل پڑا، چچی نے پہلے تو فہد کو اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر لٹایا، پھر ایک کمرہ چھوڑ کے اگلے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا، " یہ تُمہارا کمرہ ہے۔ ساتھ میں فائزہ اور مائرہ کا اور اس سے آگے میرا ہے۔ باتھ روم کا تم کو پتہ ہی ہے کہ کہاں ہے۔" " جبتک تم یہاں ہو یہ تُمہارا ہے کوئی تمہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔" یہ بات کہتے ہوئے چچی نے مُسکرا کر ایک آنکھ دبائی اور ہولے سے کہا " سوائے میرے "۔ میں بھی انہیں مسکراہٹ سے ہی جواب دے رہا تھا۔ اگرچہ ہم ایک دوسرے سے بہت پہلے سے ہی کھل چکے تھے اور ہم دونوں ایکدوسرے کے انگ انگ سے آشنا تھے لیکن پھر بھی بچوں کے سامنے ان تمام تکلفات کو مدنظر رکھنا ضروری تھا تاکہ وہ اسے عام روٹین کے مطابق ہی سمجھیں۔ کمرہ اور بستر دیکھ چُکنے کے بعد ہم واپس ڈرائنگ روم میں آگئے۔ جب تک بچے جاگ رہے تھے۔ ہم کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ دونوں جانب امنگیں تڑپ رہی تھیں۔ لیکن ہمیں برحال ان مچلتی امنگوں کو ابھی قابو میں رکھنا تھا۔ اور ہم دونوں نے ہی کمال ضبط سے ان پر قابو پا رکھا تھا۔ چچی اور میں کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ فائزہ اور مائرہ سکول کا کام ختم کر کے اب ٹی وی دیکھنے میں محو تھیں۔ جب رات کے نو بجے تو چچی نے فائزہ اور مائرہ کو سونے کا کہہ کر ٹی وی آف کر دیا۔ میں بھی سونے کا کہہ کر اُٹھ گیا۔ سونا کسے تھا بس لڑکیوں کو مطمئن کرنا تھا کہ سونے کا وقت ہو گیا ہے۔ میں بستر پر آکے لیٹ گیا اور چچی کے ساتھ ہونے والے سیکس کے تصورات میں کھو گیا۔ میں خود کو خوش قسمت تصور کر رہا تھا کہ چچی جیسی خوبصورت عورت مجھ پر فدا تھی اور میری جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے مالی ضرورت کا بھی خیال رکھ رہی تھی۔ میں انہی خیالوں میں غرق تھا کہ کمرے کا دروازہ کھُلا اور مجھے چچی کا ہیولا نظر آیا۔ " نبیل سو گئے ہو کیا؟" چچی میرے بیڈ کے قریب آتے ہوئے سرگوشی سے بولیں۔ " ایسے میں کوئی سو سکتا ہے کیا؟" میں نے چچی کے انداز میں ہی سرگوشی کرتے ہوئے سوال کے انداز میں جواب دیا۔ "اچھا آؤ میرے ساتھ میرے کمرے میں چلتے ہیں۔" چچی مجھے اُٹھا کر اپنے کمرے میں اپنے ساتھ لے آئی۔ میں تو بس چچی کا غلام تھا۔ وہ جیسے جیسے کہہ رہی تھیں میں ویسے ہی ان کا ہر حکم بجا لا رہا تھا۔ چچی ایک جالی دار نائٹ ڈریس پہنے ہوئے تھیں۔ جبکہ کھلے بالوں  کے ساتھ کمرے میں نیلی روشنی والے چھوٹے بلب کی روشنی میں چچی کا حُسن قیامت خیز تھا۔ میرا لنڈ تو ان کے خیال سے ہی اکڑ جاتا تھا۔ ان کا یہ روپ دیکھ کر تو کافی بیتاب ہو رہا تھا۔ چچی نے میرے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پیچھے سے ہی مجھے اپنے بازؤوں کے حصار میں لے لیا۔ وہ مجھ سے ایسے چپک گئیں جیسے چبائی ہوئی چیونگم چپک جاتی ہے۔ ان کی گرم سانسیں مجھے اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھیں۔ چچی کا دایاں ہاتھ میرے بازو کے نیچے سے ہوتا ہوا میرے سینے سے کھیلنے لگا جبکہ ان کا بایاں ہاتھ میرے ناف کے قریب پیٹ کو دبوچے ہوئے تھا۔ " تمہیں نہیں پتہ نبیل یہ پیاس کیسی ہوتی ہے۔"   "نبیل تم اس پیاس کی تشنگی کو نہیں جان سکتے۔" چچی شائید کسی رومانوی ناول کا کوئی انتہائی رومانی حصہ سُنا رہی تھی۔ مجھے اُن کے لفظوں سے غرض نہ تھی مجھے اپنی حالت کا خوب اندازہ تھا کہ میرا لنڈ کسی لوہے کے راڈ کی طرح اکڑا ہوا تھا جبکہ میرا جسم آگ کا ایندھن بن رہا تھا۔ اس وقت میں بس یہ چاہ رہا تھا کہ چچی کو الٹا کروں اور لوہے کے اس سخت راڈ کو چچی کی چوت کی بھٹی میں ڈال کر پگلا دوں۔ میں نے چچی کا ہاتھ پکڑ کر چچی کو اپنے سامنے کھینچ لیا۔ ہم اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ چچی نے میری قمیض کو پکڑ کر میرے سر سے نکال دیا۔ چچی دیوانگی کے عالم میں تھی وہ اپنا چہرہ اور منہ میرے سینے سے رگڑ رہی تھی۔ اور جگہ جگہ بوسے دیئے جارہی تھیں۔ میرا ضبط ختم ہونے کو تھا۔ میں نے چچی کو بالوں سے پکڑ کر نیچے کی طرف ہلکا سا جھٹکا دیا تو چچی کا منہ اوپر کو اُٹھ آیا۔ جیسے ہی چچی کا منہ میرے منہ کے برابر ہوا میں نے اپنے ہونٹ چچی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ ہونٹوں کے رس کا بھی اپنا ہی مزہ ہے جتنا چوستے رہو جی نہیں بھرتا۔ چچی کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے میں نے دونوں ہاتھوں سے چچی کی نائٹ ڈریس کو اوپر کھینچ لیا۔ چچی برا اور پینٹی سے بلکل آزاد تھی۔ اسی لیئے ڈریس اترتے ہی وہ مکمل برہنہ ہو گئیں۔ چچی نے بھی جب مجھے ان کا ڈریس اتارتے دیکھا تو انہوں نے بھی میری شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ ہم دونوں مادر زاد ننگے ایک دوسرے کو چاٹنے لگے۔ چچی اپنے ایک ہاتھ سے میرے لنڈ سے بھی کھیل رہی تھی۔ میرے ہاتھ چچی کی گانڈ پر ٹکتے تو کبھی ان کے گول مٹول مموں کو دباتے۔ میں چچی کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر باری باری چوستا تو چچی کی سسکاریاں نکل جاتی ۔ اور وہ زیادہ جوش میں دکھائی دینے لگتی۔ چچی مجھے چاٹتے ہوئے نیچے میرے لنڈ تک چلی گئی۔ ایک دو بوسے دینے کے بعد چچی نے میرے لنڈ کے سرے کو اپنی زبان کی نوک لگائی تو ایک سرد لہر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی میرے پورے جسم میں سرایت کر گئی۔ چچی پہلے تو لنڈ پر زبان پھیرتی رہی پھر آہستہ آہستہ لنڈ کو اپنے ہونٹوں کے حلقوں میں لینا شروع کیا تو مجھ پر گویا جنون طاری ہونے لگا۔ چچی میرے لنڈ کو چُوس رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا جیسے وہ لنڈ کے راستے میری روح کو کھینچ رہی ہے۔ چچی کے یوں میرے لنڈ کو چوسنے سے میرا ضبط جواب دے گیا میں نے وہیں چچی کے منہ کو ہی زور زور سے چودنا شروع کر دیا۔ چچی نے لنڈ کو اپنے تھوک سے خوب گیلا کیا ہوا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ چچی مجھے منہ میں چودنے سے روک دے گی لیکن اس نے مجھے بلکل بھی نہیں روکا بلکہ ہونٹوں کو میرے لنڈ کے گرد اچھی طرح کس لیا جس سے میرا لنڈ اندر باہر ہوتے ہوئے چچی کے ہونٹوں سے رگڑ کھا کر اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے چچی کے سر کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور کافی تیزی سے چچی کے منہ میں چود رہا تھا۔ میرا لنڈ چچی کے گلے کے اندر تک پہنچ رہا تھا۔ اور جب بھی میں لنڈ کو چچی کے گلے تک لے کر جاتا چچی کی آنکھیں اُبل پڑتیں۔ ان کا منہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو گیا تھا۔ آنکھوں سے پانی جاری تھا جبکہ گلے سے غرپ غرپ کی آوازیں برآمد ہوتیں۔ میں چچی کے منہ کو چودتے ہوئے لنڈ کو بڑی تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا۔ اور ہر بار میری کوشش ہوتی کہ لنڈ کو زیادہ سے زیادہ چچی کے منہ کے اندر تک لے جاؤں ۔ چچی بھی جیسے یہی چاہتی تھی ۔ میں جب بھی لنڈ کو چچی کی منہ کے اندر دھکیلتا چچی دونوں ہاتھوں سے میری گانڈ پر اپنے منہ کی طرف دباؤ بڑھا دیتی۔ لنڈ کی تمام رگیں تنی ہوئی تھیں اور میں بہت زیادہ جوش میں تھا۔ پتہ ہی نہیں چلا اور میں نے چھوٹ کا فوارہ چچی کے منہ کے اندر ہی چھوڑ دیا۔ چچی کا منہ میں نے چھوٹ سے بھر دیا۔ لنڈ کو باہر کھینچا جو چھوٹ سے لتھڑا ہوا تھا۔ چچی کسی بے صبرے بچے کی طرح چاٹ چاٹ کر صاف کر رہی تھی جیسے چھوٹ نہ ہو بلکہ خالص شہد ہو جو ان کو کسی مرض میں شفا کیلئے انتہائی ضروری ہو۔ میں چچی کی آنکھوں میں عجیب دیوانگی دیکھ رہا تھا۔ ان کے گال ہونٹ اور ٹھوڑی میرے چھوٹ سے لتھڑے ہوئے تھے اور وہ زبان گھما گھما کر انہیں صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے لنڈ کو وہ ایسے چُوس رہی تھی جیسے آخری قطرہ تک کھینچ لینا چاہتی ہو۔
چچی نے میری تقریباً تمام منی چاٹ لی تھی۔ وہ مکمل طور پر پاگل پن کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ لنڈ سُکڑ چُکا تھا اب شائید چچی مجھ سے چاٹنے کا بدلہ لینا چاہتی تھی اسی لیئے چچی بیڈ پر لیٹی تو اُس نے مجھے بھی ساتھ کھینچ لیا۔ ہم دونوں بیڈ پر چپکے ہوئے تھے۔ چچی نے مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور مجھے سر سے پکڑ کر میرے منہ کو اپنے مموں پر ٹکا دیا۔ میں باری باری دونوں کو چُوس رہا تھا۔ ہم کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ بس اشاروں کی زبان تھی جس پر ہم بخوبی عمل کر رہے تھے۔ جیسے چچی جدھر جدھر میرے سر کو گھما رہی تھی میں وہاں وہاں چوم رہا تھا۔ چچی نے میرا سر اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ رکھا اور گانڈ ہلا ہلا کر چوت کو میرے منہ سے رگڑنے لگی۔ میں چچی کو دیکھ چُکا تھا کہ کس طرح سے انہوں نے میرے لنڈ کو چوسا تھا۔ میں اس جوش کا بدلہ ان کی چوت کو چاٹ کر دینا چاہتا تھا۔ میں نے  زبان کی نوک سے چوت کے دونوں ہونٹ الگ کئے۔ نیچے سے اوپر تک چوت کی پرتوں کو الگ کرنے کے بعد چوڑی زبان سے کسی کُتے کی طرح چاٹنے لگا۔ چوت کے نچلے حصے سے زبان کو اوپری حصے تک لے کے آتا تو چچی کی سسکاریاں نکل جاتیں۔ آہہہہہہہہہ ہہہہہہہہہمممم اووووووووں آآآآآہہہہہہہ جیسی آوازیں میری زبان کے چچی کی چوت پر رگڑ کھانے پر چچی کے منہ سے نکل رہی تھی ۔ اور میں جس رفتار سے زبان گھماتا چچی کی آوازیں بھی اسی رفتار سے ابھرتی۔ چچی کی چوت گیلی ہو چُکی تھی، لیکن میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھا۔ میں نے اب تیزی سے زبان کو چوت کے اندر باہر کر رہا تھا۔ جیسے زبان سے چچی کی چوت مار رہا تھا۔ چچی کی دیوانگی عروج پر تھی اور ان کے منہ سے نکلنے والی آوازیں میرے جوش کو بڑھا رہی تھی۔ میں کبھی انگلیوں سے چوت پر مساج کرتا اور کبھی زبان سے چاٹنے لگتا۔ ہم دونوں کے جسم انگارے بنے ہوئے تھے۔ میرا سُکڑا ہوا لنڈ پھر سختی پکڑ چُکا تھا۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ چچی کی چوت میں ڈال دوں لیکن میں چچی کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔ چچی شائید ابھی چوت چٹوانے کا مزہ ہی لینا چاہتی تھی۔ اسی لیئے وہ اپنی گانڈ گھما گھما کر میرے منہ پر رگڑتی اور میں زبان سے ان کی چوت کو اچھی طرح چاٹ رہا تھا۔ ان کی لیس دار نمکین چوت کو پہلی دفع چاٹنے پر مجھے بہت کراہت ہوئی تھی لیکن اب مجھے بھی کافی مزہ دیتی ہے۔ اور میں بھی اسے چاٹنا پسند کرنے لگا ہوں۔ اور چوت چاٹتے ہوئے چچی کی آہہہہہ ہہہہہمممم اووووووں کی آوازیں مجھے بہت مزہ دیتی تھیں۔ چچی کی تیز ہوتی سسکاریاں کسی طوفان کا پتہ دے رہی تھی۔ میں پوری لگن سے اُن کی چوت کو چاٹ رہا تھا اچانک مجھے لگا چچی کی چوت سے جیسے پانی اُبل پڑا ہو، چچی کے جوش میں بھی قدرے سکون آ گیا تھا۔ میں نے چچی کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں موندے ہوئے کھلے منہ سے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ میں سیدھا ہو کر بیٹھا تو چچی نے ہاتھ بڑھا کر مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ لیا۔ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے انتہائی مخمور آواز میں دھیرے سے کہا "نبیل رُک کیوں گئے، میری چوت تمہاری جاگیر ہے اسے آج اتنا چودو کہ اس کی ساری پیاس بجھ جائے۔ نبیل میرے راجہ میری چوت لوڑے کی پیاسی ہے اپنے لوڑے سے ایسا سیراب کرو کہ اس کی پیاس باقی نہ رہے۔" ہم ایک دوسرے کو چوم رہے تھے۔ چچی نے میرے لنڈ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے رگڑ رگڑ کر اکڑا دیا تھا۔ چچی بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ میں اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر بیٹھ گیا۔ چچی اپنی چوت کو ٹشو پیپر سے خشک کر چُکی تھی۔ میں نے چچی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور دونوں ہاتھ چچی کی گانڈ کے نیچے لے جا کر انہیں اوپر اٹھایا کہ ان کی چوت میرے لنڈ کے مقابل آ جائے۔ چچی نے مجھے ایسے کرتا دیکھا تو ایک تکیہ گانڈ کے نیچے لے لیا۔ جس سے ان کی چوت اوپر اُٹھ گئی۔ ان کا پیٹ نیچے جبکہ چوت اوپر میرے لنڈ کے بلکل سامنے تھی۔ میں نے گھٹنوں کے بل ہو کر لنڈ ہاتھ میں لیا اور اس کا سر چچی کی چوت کے اوپر رگڑا تو چچی نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ مجھے اُن کا یوں ٹھنڈی سانسیں بھرنا بہت اچھا لگا۔ میں نے کچھ دیر ایسے ہی لنڈ کو چچی کی چوت پر رگڑا جس سے چچی کی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ اسسسس آخخخخخ عممممم اووونہہہہ کی آوازی بدستور چچی کہ منہ سے نکل رہی تھیں۔ میں پوری طرح ان آوازوں سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ چچی کا صبر آخر جواب دے گیا۔ " نبیل اب اندر ڈال بھی دو۔" چچی کے کانپتے ہونٹوں سے آواز نکلی " کیوں مجھ پیاسی کو تڑپا رہے ہو۔" میں نے لنڈ کا سر جو کہ چچی کی چوت پر رگڑنے سے چکنا ہو چُکا تھا چچی کی چوت کے سوراخ کے اوپر رکھا اور آہستہ سے دھکا دیا تو وہ چوت کے اندر گھستا چلا گیا۔ چچی نے لمبی سانس کھینچی وہ لُطف و سرور کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں۔ چچی کی چوت اندر سے بہت گرم تھی مجھے لگا میں نے لنڈ کو جیسے آگ میں ڈال دیا ہو۔ جب لنڈ پوری طرح چوت میں چلا گیا تو میں نے اُسی طرح اسے دھیرے دھیرے باہر کھینچا اور پھر ایک تیز دھکے سے دوبارہ چچی کی چوت کے اندر غرق کر دیا۔ یہی عمل میں نے دہرانا شروع کیا تو چچی کی سسکیاں تیز سے تیزتر ہونے لگیں۔ اور چچی کا یوں سسکنا میرا جوش بڑھانے لگا۔ جس سے میری دھکے لگانے کی رفتار بڑھنے لگی۔ میں جوش میں تھا اور کسی مشین کی طرح رفتار پکڑ چُکا تھا۔ چچی کی سسکیاں میری رفتار کا ساتھ دے رہی تھیں۔ میری خود کی سانسیں بھی بےترتیب اور تیز تیز چل رہی تھیں۔ چچی کی چوت گیلی ہونے کی وجہ سے لنڈ آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ جب لنڈ پوری رفتار سے اندر باہر ہونے لگا تو چوت کا گیلا پن بھی آہستہ آہستہ خشک ہونے لگا اور چچی میرے ہر دھکے پر آہہہہہہہہہ ہہہہممم اووووووں آاااںںںں کی آوازیں بھی تیزی سے نکال رہی تھی۔ چچی مجھے مزید تیش دینے کیلئے مجھے رفتار کو مزید تیز کرنے کا بھی کہہ رہی تھی۔ چچی کی آواز حقیقت میں مجھ پر جادو سا کر دیتی۔ میرا لنڈ اور چچی کی چوت سوکھ چکے تھے اور لنڈ چوت میں گھسانے کے لیئے اب تھوڑا زور بھی لگانا پڑ رہا تھا۔ اور لنڈ چوت کے اندر رگڑ کھا کر جا رہا تھا۔ مجھے چوت کے اندر لنڈ جکڑا ہوا لگتا۔ لیکن اس میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ چچی کی آہہہہہہہہ اووووووں میں بھی تکلیف اور درد کا احساس ابھر رہا تھا۔ لیکن وہ جنون کی کیفیت میں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور مجھے ایسی حالت میں بھی پکار پکار کر کہہ رہی تھی "نبیل چودو مجھے ، زور سے چودو، تیز تیز چودو، ہاں میرے شہزادے تیز کرو اور تیز ، پورا اندر کرو،" اور میں گویا کوئی مشین بنا ہوا تھا۔ میں بہت تیزی سے دھکے لگا رہا تھا، میرا لنڈ گوشت کا لگ ہی نہیں رہا تھا۔ لوہے کی طرح سخت تھا۔ چچی کی سسکیوں میں اب درد کے آثار بھی شامل تھے۔ میرے لنڈ کے اندر باہر کا سفر جاری تھا اور چچی کے چہرے سے تکلیف عیاں تھی۔ میں جب لنڈ کو چوت کے اندر دھکا دیتا تو چچی دانتوں کو بھینچ لیتی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں جبکہ منہ سے بدستور آہہہہہ آہہہہہہہہہ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اچانک چچی نے مجھے چودنے سے روکا اور اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن جب میرے لنڈ کو منہ میں لیا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ اسے تھوک سے گیلا کرنا چاہ رہی ہے۔ جب لنڈ کو اچھی طرح گیلا کر لیا تو کچھ تھوک انگلیوں پر ڈال کر چوت پر مل دیا۔ چچی نے اب شائید پوزیشن بدلنے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل ہو گئیں۔ ان کی گانڈ اوپر اُٹھی ہوئی جبکہ دونوں کندھے بیڈ پر ٹکے ہوئے تھے۔ وہ چوپائے کی طرح لگ رہی تھی۔ ان کی چوت میرے سامنے تھی جبکہ میں اب فرش پر کھڑا تھا۔ اس پوزیشن پر میرے لیئے چچی کو چودنا نسبتاً آسان تھا۔ کیونکہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے رہتے ہوئے زیادہ زور سے اور آسانی کے ساتھ لنڈ کو چوت کے اندر دھکے لگا سکتا تھا۔ میں نے لنڈ کو ایک بار پھر تھوک سے اچھی طرح گیلا کیا اور چچی کی چوت پر رکھ کر چوت کے اندر دھکیل دیا۔ لنڈ چچی کی چوت کی خُشک دیواروں کو جیسے چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ چچی کی گول مٹول گانڈ پر جما دیئے اور پھر سے مشین کی طرح دھکے لگانے لگا۔ چچی اپنی سیکسی آوازوں سے میرے جوش کو مسلسل بڑھا رہی تھی۔ اس پوزیشن پر میں جب بھی لنڈ کو چوت کے اندر دھکیلتا مجھے لگتا جیسے یہ چچی کے پیٹ سے باہر آئے گا۔ کچھ ہی دیر بعد لگا جیسے میرا لنڈ پھٹ جائے گا لیکن میں نے اسے دھکے دینا روکا نہیں، چچی کی چوت ایک بار پھر گیلی ہوگئی تھی اور لنڈ کے تیزی سے اندر باہر ہونے پر آوازیں دے رہی تھی۔ مجھے بھی محسوس ہورہا تھا کہ میرا لنڈ ابھی چھوٹ جائے گا۔ میں اسی رفتار سے چچی کو چود رہا تھا اور پھر آخر میرے لنڈ سے بھی فوارہ اُبل پڑا، لنڈ کو چچی کی چوت میں ڈالے ہوئے میں چچی کے اوپر ہی لیٹ گیا اور دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر چچی کے نرم گُداز مموں کو پکڑ لیا۔ ہم دونوں جیسے پسینے سے نہائے ہوئے تھے۔

داستانِ محبت

داستان محبت

میرا نام نبیلہ ہے۔ 27 سال کی ہوں، قد کاٹھ اور شکل صورت سے اچھی بھلی ہوں۔ لکھنا میرا شوق نہیں ہے پر دوسروں کی کہانیاں پڑھ پڑھ کے خیال آیا کے کیوں نا اپنی کہانی بھی آپ لوگوں سے شیئر کروں۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کرنا کوئی اچھی نظر سے تو نہیں دیکھا جاتا لیکن پھر بھی میرے خیال میں اگر میں اپنا تجربہ اور مشاہدہ آپ لوگوں سے شیئر کر لوں گی تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ ویسے بھی ہر انسان ایسی ہی کسی نا کسی کہانی کا کردار ضرور ہوتا ہے۔ لیکن سب ہی معاشرے کی پابندیوں اور قیود کی وجہ سے اپنے کردار کو بیان نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کے میں بھی اپنی کہانی کے کرداروں اور مقامات کو چھپاتے ہوئے اپنی کہانی بیان کروں گی جو کے سو فیصد سچی اور حقیقی کہانی ہے۔ لمبی تمہید سے بہتر ہے کے کہانی بیان کروں۔ تو ہوا کُچھ یوں تھا کہ میں اُس وقت تقریباً سولہ سال کی تھی جب ہمارے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں کوئی بہت کمزور سٹوڈینٹ تو نہ تھی پر کوئی بہت ذہین اسٹوڈینٹ بھی نہ تھی۔ جس وجہ سے امتحانات کی تیاری کیلئے مجھے کسی نہ کسی سے راہنمائی کی ضرورت تھی۔ میری خالہ کا بیٹا شہزاد بی اے کر چُکا تھا اور وہ ہمارے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں رہتا تھا۔ میں نے امی جان سے کہا کے وہ شہزاد بھائی سے بات کریں کے وہ  فارغ وقت میں مجھے پڑھا دیا کریں۔ اس طرح مجھے ٹیوشن کیلئے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ آنے جانے کی پریشانی بھی نہیں ہو گی اور وقت بھی ضائع نہیں ہو گا۔ امی اسی دن شہزاد بھائی سے بات کر آئیں اور انہوں نے مجھے بتایا کے انہوں نے شہزاد سے بات کر لی ہے اور وہ ہر شام سات بجے سے نو بجے تک آیا کرے گا مجھے پڑھانے۔ اُس دن میں نے جلدی جلدی تمام کام نبٹائے اور اپنی کتابیں لے کر ڈرائنگ روم میں پڑھنے بیٹھ گئ۔ تقریباً ساڑھے سات بجے ہوں گے جب شہزاد بھائی ہمارے گھر آئے۔شہزاد بھائی کی عمر اُس وقت پچیس سال کے قریب تھی۔ اور کافی وجیہہ اور ہینڈسم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا قد چھ فٹ کے قریب جبکہ جسم مضبوط اور توانا۔ کلین شیو کے ساتھ سانولا رنگ قیامت خیز تھا۔ رسمی سلام دُعا کے بعد مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے " اچھا تو میری شاگرد پڑھائی کیلئے تیار ہے؟" میں نے بھی سر ہلاتے ہوئے کہا " جی بھائی جان "۔   " ویری گُڈ، یہ بتاؤ کس سبجیکٹ میں خود کو زیادہ کمزور سمجھتی ہو؟ " شہزاد بھائی نے میری کتاب اُٹھا کر اُس کے ورق اُلٹتے ہوئے کتاب پر ہی نظریں جمائے مجھ سے دوسرا سوال پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا کے میتھ اور انگلش میں کمزور ہوں۔ میں تھوڑا سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی اور بات کرتے ہوئے بھی تھوڑی جھجھک رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے کتاب میز پر رکھتے ہوئے میری جانب دیکھا اور بولے " اگر اسی طرح تم گھبرائی اور جھجھکتی رہو گی تو میرا نہیں خیال کے میں تم کو جو کچھ پڑھاؤں گا وہ تم کو ذہن نشین بھی کرا سکوں گا۔ لہذا ڈرنے جھجھکنے کی ضرورت نہیں، ہم بڑے دوستانہ ماحول میں سٹڈی کریں گے اور جو کچھ بھی پڑھیں گے اسے یاد بھی رکھیں گے۔ جی بہتر، میں خود کو تھوڑا رلیکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔ اُس دن پڑھائی تو کوئی خاص نہ ہوئی البتہ شہزاد بھائی نے اپنوں باتوں اور چُٹکلوں کی مدد سے میری جھجھک دور کر دی۔
میں اب کافی رلیکس بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں شہزاد بھائی کے چُٹکلوں کا جواب بھی چُٹکلوں کی صورت ہی دے رہی تھی۔ میرا چنچل پن بیدار ہو چُکا تھا۔ شہزاد بھائی نے تھوڑی سی میتھ کی مشق کرائی اور انگلش کل سے شروع کرنے کا کہہ کر گھر کیلئے اُٹھے۔ امی نے انہیں روک لیا کے چائے تو پیتے جائیں۔ شہزاد بھائی بھی چائے کیلئے بیٹھ گئے۔ چائے اور تھوڑی گپ شپ کے بعد شہزاد بھائی کل شام سات بجے آنے کا کہہ کر گھر چلے گئے۔ تقریباً دو ہفتوں تک معاملات ایسے ہی چلتے رہے۔ وہ وقت کے خاصے پابند تھے۔ وقت پر آتے اور اپنا کام وقت پر ختم کر کے چلے جاتے۔ ان کی شخصیت جاذب نظر تو تھی ہی ان کے پڑھانے اور سمجھانے کا انداز بھی خوب تھا۔ یہی وجہ تھی کے میں شہزاد بھائی کی گرویدہ ہو چکی تھی اور اُن سے کافی بے تکلفی بھی ہو چُکی تھی۔ اُس دن شہزاد بھائی مجھے میتھ کی مشق کرا رہے تھے جب امی چائے لے آئیں۔  انہوں نے چائے میز پر رکھی اور بولیں کے چائے ٹھنڈی ہونے سے پہلے پی لینا۔ یہ کہہ کر وہ واپس کچن میں چلی گئیں۔ مشق ختم ہوئی تو میں نے چائے کی پیالی اُٹھا کر شہزاد بھائی کو دینا چاہی تو پتہ نہیں کیا ہوا کہ میرا ہاتھ کانپ گیا اور ساری کی ساری چائے بھائی شہزاد کے اوپر گر گئی۔ جس سے اُن کی پتلون اور شرٹ بھیگ گئی۔ میرے تو اوسان خطا ہو گئے۔ دوڑتی ہوئی گئی اور تولیہ اُٹھا لائی۔ میں بار بار شہزاد بھائی کو سوری بول رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی پتلون اور شرٹ کو تولیے سے خُشک کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ "آپ جلے تو نہیں بھائی جان" میں نے مسلسل تولیہ رگڑتے ہوئے پوچھا۔ "چائے سے تو نہیں جلا لیکن اب تم ضرور جلا ڈالو گی" میں ان کے اس جُملے کو بالکل بھی نہ سمجھی اور اسی طرح تولیہ سے اُن کی پتلون کو خشک کرنے میں لگی رہی۔ میں اُن کی پتلون کے اندر ہونے والی تبدیلی بھی نہ دیکھ پائی۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کے شہزاد بھائی کی پتلون تن سی گئی ہے۔ میں شائید کچھ دیر اور اسی طرح تولیے سے اُنہیں خشک کرنے میں لگی رہتی پر شہزاد بھائی نے مجھے روک دیا اور مجھے دونوں کندھوں سے اُٹھا کر کھڑا کرتے ہوئے بولے ' بس کرو ببلی (گھر میں مجھے سب اسی نام سے پُکارتے تھے) ایوری تھنگ از فائن تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ لیکن میں خود میں بہت شرمندہ تھی۔ اسی لیئے جب میں نے انہیں اس شفقت سے پیش آتے دیکھا تو میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ انہوں نے جب مجھے یوں روتے دیکھا تو اپنی بانہوں میں بھرتے ہوئے مجھے سینے سے لگا لیا۔ اور ماتھے پر کس کرتے ہوئے بولے " ارے پگلی روتی کیوں ہو تم نے جان بوجھ کر چائے تھوڑی گرائی ہے۔ یہ تو حادثاتی ایسے ہوا۔ ان کے ڈھارس بندھانے پر مجھے حوصلہ ہوا اور میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا " جانتی ہوں کے حادثہ ہوا ہے لیکن حادثات بھی تو کسی نا کسی غلطی کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں اور اس حادثے کی غلطی کی میں ہی ذمہ دار ہوں۔" شہزاد بھائی بھی شائید ماحول کو خوشگوار بنانا چاہتے تھے اس لیئے بولے " ببلی میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کے تم ایسے حادثات روز کیا کرو۔" وہ ہنس رہے تھے اور ان کی یہ معنوی ہنسی میری سمجھ سے باہر تھی۔ میں بھی انہیں ہنستے دیکھ کر مسکرا دی۔ میں ابھی تک شہزاد بھائی کی بانہوں کے گھیرے میں تھی۔ انہوں نے میرے کولہے پر ہلکی سی چپت لگائی اور گال پر کس کرتے ہوئے بولے " چلو واپس وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر حادثہ ہوا تھا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی بانہوں کے گھیرے سے آزاد کر دیا۔ میں نے واپس اپنی کرسی پر بیٹھ کر کتاب کھولنا چاہی تو شہزاد بھائی نے کہا آج کا کام ختم کل دیکھیں گے۔ میں چلتا ہوں کیونکہ اس حالت میں میں تمہیں کُچھ نہیں پڑھا پاؤں گا۔ شہزاد بھائی اپنی کس حالت کے بارے میں کہہ رہے تھے مجھے کچھ پتہ نہ چلا ۔ میں تو یہی سمجھی کے وہ اپنے کپڑوں کی وجہ سے کہہ رہے ہیں۔ شہزاد بھائی کے اندر کیا تغیّر رونما ہو چُکا تھا میں بالکل انجان تھی۔
اس دن جب میں بیڈ پر تھی تو یہ واقعہ بار بار میرے دماغ میں گھوم رہا تھا۔ شہزاد بھائی کا مجھے چھونا، ماتھے اور گال پر کِس کرنا مجھے اپنی بانہوں میں بھرنا اور میرے کولہے پر چپت لگانا۔ یہ سب اس وقت تو میرے لیئے بے معنی تھے لیکن اب ان واقعات کو سوچنا اچھا لگ رہا تھا۔ ان سب احساسات کو میں اب دوبارہ سے محسوس کر رہی تھی۔ میں جتنا سوچتی رہی میرا لذّت کا احساس بڑھتا رہا۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کے کب نیند نے آ لیا۔ اور میں نیند کی گہری وادی میں غوطے کھانے لگی۔
  اُس رات میں نے بار ہا خواب میں شہزاد بھائی کو دیکھا۔ کبھی ہم کسی ندی کے کنارے بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے کبھی کسی پارک کے کونے میں کسی بینچ پر بیٹھے کچھ راز و نیاز کی باتیں کر رہے ہوتے۔ کبھی پہاڑوں جنگلوں اور صحراؤں میں تو کبھی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں سے کھیل رہے ہوتے۔ غرض اُس رات میں نے اور شہزاد بھائی نے مل کر دنیا جہان کی سیر کی اور ہر بار شہزاد بھائی اسی طرح میرے کولہے پر چپت لگاتے اور میرے گال پر کِس کرتے۔ مجھے ہر منظر میں اُن کا مجھے اپنی بانہوں کے حصار میں لینا نظر آتا۔ میں اُس دن بہت گہری نیند سوئی صُبح اٹھی تو میرے خواب کا ہر ہر منظر میرے ذہن میں نقش تھا۔ میں بستر سے اٹھنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں ان خوابوں کی دُنیا سے نکلنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ مجھے علم نہیں کے ایسا کیوں تھا پر جو بھی تھا بہت پُرلُطف تھا۔
       دوسری شام جب شہزاد بھائی ہمارے گھر پہنچے تو میں اُسی وقت نہا کر نکلی تھی۔ میرے بال گیلے تھے اور ان سے ابھی تک پانی ٹپک رہا تھا۔ جس سے میری قمیض بھی گیلی ہو گئی تھی۔ یقیناً میری برا کی جھلک قمیض سے عیاں ہو رہی ہو گی۔ میرے بُوبز اگرچہ بہت بڑے نہ تھے مگر چھوٹے بھی نہ تھے۔ ان کا عکس بھی قمیض سے ظاہر تھا۔ یہی وجہ تھی کے شہزاد بھائی کی بار بار اُٹھتی ہوئی نظر کو میں بخوبی نوٹس کر سکتی تھی۔ میں تو شہزاد بھائی کو خوابوں میں بسا چُکی تھی لیکن یہاں لگتا تھا کے شہزاد بھائی کے من میں بھی کوئی اُتھل پتھل چل رہی ہے۔دوران سٹڈی مجھے ایک بار لگا کہ شہزاد بھائی کا ہاتھ میرے گُٹنے سے اوپر میری ران پر ہے۔ اور ان کی انگلیاں شائید لرز رہی تھیں یا پھر سلپ ہو رہی تھیں۔ پھر ایک بار جب وہ میرے پیچھے کھڑے تھے تب بھی مجھے اپنے کندھے پر کسی سخت چیز کی چُبن کا احساس ہوا تھا۔ یہ میرا واہمہ تھا یا پھر حقیقت میں کچھ ہو رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کے پسِ پردہ کیا ہے لیکن اتنا ضرور تھا کے شہزاد بھائی کے ہاتھو کا لمس مجھے مسحور کر رہا تھا۔زندگی میں مجھے ایسی مسحور کُن فیلنگز پہلے کبھی نہیں ہوئیں تھیں۔ یونہی جب شہزاد بھائی مجھے میتھ کے ایک سوال کی مشق کرا رہے تھے تو میں ان کے ساتھ بہت قریب ہوگئی یہاں تک کے میرا سر اُن کے سر سے جُڑا ہوا تھا اور میرا ایک کندھا ان کے کندھے سے لگ گیا تھا جبکہ میرا دوسرا کندھا تھوڑا آگے کو جھک گیا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے اگر شہزاد بھائی نے میری قمیض کے گلے سے اندر جھانکا ہو گا تو انہیں میری ناف تک سب صاف صاف نظر آیا ہوگا۔ میں نے ایسا کوئی ارادتاً نہیں کیا تھا بلکہ ایسا ہونا اتفاقاً تھا۔
آخر نو بجے اور بھائی شہزاد گھر جانے کیلئے اُٹھے تو میں بھی کتابیں سمیٹ کر اُٹھی تو انہوں نے قریب سے گُزرتے ہوئے بڑی آہستگی سے کہا "ببلی تم آج بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔  میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو اس دوران وہ مجھ سے دور ہٹ چکے تھے۔ ان کے الفاظ ساری رات میرے کانوں میں بجتے رہے۔ شائید خواتین کے متعلق سچ کہا جاتا ہے کے وہ بہت خود پسند ہوتیں ہیں اسی لیئے ان کی تعریف کیجائے تو پھُولے نہیں سماتیں۔ اگلے دن  بھی شہزاد بھائی وقت پر ہی آ گئے۔ ابھی ہم نے سٹڈی سٹارٹ ہی کی تھی کے بجلی چلی گئی ۔ میں اٹھی کے موم بتی جلا کر لے آؤں تو شہزاد بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے، ہم نے کونسا موتیوں سے مالا پروہنی ہے ایسے ہی بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں بجلی تو آ ہی جائے گی۔ تو میں بھی ادھر ہی بیٹھ گئ ۔ شہزاد بھائی بدستور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ جو کے اب میری گود میں تھا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ پہلے تو شہزاد بھائی نے میرا ہاتھ ایسے ہی پکڑے رکھا پھر آہستہ آہستہ وہ میرے ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنے لگے۔ ان کا ایسے میری انگلیوں سے کھیلنا مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ اگرچہ وہ میرے ہاتھ کی انگلیوں سے کھیل رہے تھے لیکن ان کے ہاتھ کی پُشت میری رانوں سے رگڑ کھا رہی تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد ان کا ہاتھ سیدھا میری ران پر تھا۔ میں کچھ بھی نہ بولی تو انہوں نے مساج کی طرز پر اپنے ہاتھ کو میری ران پر پھیرنا شروع کر دیا۔ وہ ساتھ میں باتیں بھی کر رہے تھے اور اپنے ہاتھوں کو بھی حرکت دیئے ہوئے تھے۔ مجھے جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے ہاتھ کی درمیانی اُنگلی نے شلوار کے اوپر سی ہی میری چوت کو ٹچ کیا۔
     ایک سرد لہر میرے پوری وجود میں محسوس ہوئی۔میرے وجود کی عمارت کانپ کے رہ گئی۔ اگرچہ شہزاد بھائی کی محبت مجھ پر ہاوی ہو چُکی تھی اور ان کی پر اثر شخصیت نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا لیکن میں اس فوری عمل کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میں نے دھیرے سے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا اور بڑی آہستگی سے ان کے ہاتھ کو اپنے گُٹنے کی جانب سرکا دیا۔ کُچھ دیر تک تو شہزاد بھائی کا ہاتھ اُدھر ہی رکا رہا لیکن وہ اب پھر سے سرکنے لگا تھا۔ کمرے میں اس وقت چونکہ اندھیرا تھا اور ہم ایک دوسرے کے چہروں کے تاثرات نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ لیکن میں شہزاد بھائی کی بےترتیب سانسوں اور اپنی ہوئی حالت سے اندازہ کر سکتی تھی کے اس وقت شہزاد بھائی کے محسوسات کیا ہونگے۔ شہزاد بھائی کا ہاتھ جیسے جیسے میری ران پر سرکتا میرے جسم کی ہر رگ میں جیسے کرنٹ دوڑ جاتی۔ حقیقت کہوں تو مجھے ان کے ہاتھ کا یوں میری ران پر سرکنا بہت مزہ دے رہا تھا لیکن کوئی اندرونی خوف تھا جو روک رہا تھا۔شہزاد بھائی آج کافی ایگریسو لگ رہے تھے۔ ان کا ہاتھ دوبارہ میری ٹانگوں کے درمیان پہنچ چکا تھا۔ میں سسک سی گئی۔ اگر شہزاد بھائی کی جگہ کوئی بھی اور ہوتا تو میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کے میں اُس کا منہ نوچ لیتی۔ لیکن شہزاد بھائی کیلئے تو میں پہلے سے ہی سب کچھ ہاری ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی میں یہ سب کچھ نہیں چاہ رہی تھی جو ہو رہا تھا۔ میرا بدن تپنے لگا تھا اسی لیئے میں نے شہزاد بھائی کے ہاتھ کو اُٹھا کر میز پر رکھا اور ٹوائلٹ جانے کے بہانے وہاں سے اُٹھ گئی۔ لیکن میں جیسے ہی اُٹھ کر قدم بڑھانے والی تھی پتہ نہیں مجھے کیا ہوا میں ڈگمگا گئی ۔ اسی لمحے شہزاد بھائی نے ہاتھ بڑا کر مجھے سہارا دیا تو میں گرنے سے بچ گئی۔ میں بہت نروس ہو گئی تھی شائید۔ میں جلدی سے ٹوائلٹ کی طرف بھاگی۔ مجھے کچھ حاجت تو نہ تھی۔ البتہ ٹھنڈے پانی سے منہ پر چھینٹے مارے تو گرمی کا احساس کُچھ کم ہوا۔ میں ابھی ٹوائلٹ میں ہی تھی کے بجلی آ گئی۔ میں واپس ڈرائنگ روم میں آئی تو شہزاد بھائی وہاں موجود نہیں تھے۔ مجھے پریشانی ہوئی کے ایسا کیا کے وہ بتائے بغیر ہی چلے گئے۔ اسی وقت امی ڈرائنگ روم میں آئیں تو انہوں نے بتایا کے شہزاد کہہ رہا تھا کے اُس کے سر میں درد ہو رہا ہے اور بجلی بھی نہیں ہے اس لیئے وہ گھر جا رہا ہے۔ میں نے بھی کتابیں سمیٹیں اور اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔ میری سوچ کا محور بس شہزاد بھائی ہی تھے۔ میں اپنے وجود میں اُن کے لمس کی لذت لیئے بیڈ پر دراز تھی۔ مجھے لگا کے جیسے شہزاد بھائی کی اُنگلی ابھی تک میری چوت پر ٹکی ہوئی ہے۔ میں اپنا ہاتھ اپنی ٹانگوں کے بالکل بیچ لے گئی۔ میں نے اپنی انگلیوں سے چوت کے لِپس کو چھیڑا تو مجھے وہ فیلنگز نہ ہوئیں جو شہزاد بھائی کی اُنگلی ٹچ ہونے سے ہوئیں تھیں۔ اس تھوڑے سے وقت کے ایک ٹچ نے میرے پورے بدن کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس رات بھی میں انہی سوچوں میں غرق سو گئی۔ صُبح اٹھی تو شہزاد بھائی کے ہی سحر میں سارا دن مسحور ہوتی رہی۔ شام ہونے سے پہلے ہی میں شام کا بے چینی سے انتظار کرنے لگی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کے شہزاد بھائی آج کیسے برتاؤ کرتے ہیں۔ لیکن وقت ہونے کے باوجود وہ نہیں آئے۔میں انتظار کرتی رہی لیکن میرا انتظار بس انتظار ہی رہا۔ وہ آٹھ بجے تک نہیں آئے تو میں نے امی سے کہا کے " خیر ہو، شہزاد بھائی پتہ نہیں آج کیوں نہیں آئے" امی نے کہا ' کوئی اور کام پڑ گیا ہو گا اس لیئے نہیں آ سکا ہو گا۔ میں نے کہا نہیں امی کل جب وہ گئے تھے تو اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کیا پتہ وہ ابھی تک ٹھیک نہ ہوئے ہوں آپ خالہ کو فون کر کے ان کا پتہ تو کرائیں۔ امی کو بھی جیسے کچھ یاد آیا تو انہوں نے خالہ کو فون لگایا تب خالہ نے بتایا کے شہزاد تو کل سے سخت بخار میں تپ رہا ہے۔ مجھے علم ہوا تو سخت بیچینی ہوئی دل چاہا کے ابھی جاؤں اور اس کا بخار خود پہ لے لوں ۔ لیکن میں اس وقت کیا کر سکتی تھی۔ صبح میں امی کو ساتھ لے کر اُن کا پتا لینے خالہ کے گھر گئے تو دیکھا شہزاد بھائی واقعی بخار کی وجہ سے بستر میں پڑے تھے۔تھوڑی سی رسمی بات چیت کے بعد میں ادھر ہی بیٹھ گئی۔ خالہ اور امی بھی ساتھ بیٹھی اپنی باتوں میں مصروف ہو گئیں ۔ شہزاد بھائی  نے ایکبارگی ہماری طرف دیکھا پھر انہوں نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ ہم خالہ اور امی کی موجودگی میں کوئی بات نہیں کر سکتے تھے اسے لیئے ہم خاموش بیٹھے تھے جبکہ خالہ اور امی باتیں کر رہے تھے۔ باتوں باتوں میں خالہ نے بتایا کے اُن کی سہیلی کی بیٹی کی شادی تھی جہاں ان کا جانا بہت ضروری تھا لیکن نہیں جا سکتیں۔ امی پوچھ رہی تھیں کیوں نہیں جا سکتی ہو؟ تو خالہ بولیں , جس کے ساتھ جانا تھا وہ تو بستر پر پڑا ہے اور آپ کے بھائی صاحب (خالو ) بھی آفس سے چھٹی نہیں لے سکے کہ ان کے ساتھ چلی جاتی۔ امی چونکہ خالہ کی سہیلی کو جانتی تھیں اور انہیں پتہ تھا کے وہ کدھر رہتی ہیں اس لیئے خالہ سے بولیں '' تمہاری سہیلی کون سا دوسرے شہر میں  رہتی ہے ٹیکسی پکڑو اور دو تین گھنٹے میں واپس آ جاؤ گی۔ میں نے یہ سُنا تو میرے دماغ میں آئیڈیا آیا کہ اگر امی اور خالہ شادی پر چلی جائیں تو مجھے شہزاد بھائی سے اکیلے میں بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ یہی سوچ کر میں نے بھی امی کی تائید میں کہا " خالہ اگر آپ کی سہیلی اسی شہر میں رہتی ہیں تو تب آپ ضرور ہو آئیں، شہزاد بھائی کی فکر نہ کریں دو تین گھنٹوں تک ہم ان کی تیمارداری کرلیں گے۔ خالہ اور امی دونوں کو میں نے شادی میں جانے پر آمادہ کر لیا۔اگرچہ امی جانا نہیں چاہتیں تھیں ۔
     ان دونوں کے جانے کے بعد میں اور شہزاد بھائی اب گھر میں اکیلے تھے۔ کوئی پندرہ منٹ تک ہم میں کوئی بات نہ ہوئی۔ شہزاد بھائی ویسے ہی آنکھیں موندے لیٹے رہے۔ شائید وہ میرا انتظار کر رہے تھے کے میں کوئی بات شروع کروں گی۔ لیکن میں تذبذب میں رہی کے بات شروع کیسے کروں اور کونسی بات کروں ۔
   تنہائی اور خاموشی, ماحول پر عجب پرسراریت تھی، شہزاد بھائی نے میری طرف کروٹ لے کر آنکھیں کھول دیں۔ " نبیلہ تُم نے مجھے جلا ڈالا " ان کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ۔ ان کی نظریں میرے چہرے پر گڑھی تھیں اور ہونٹ لرز رہے تھے۔ " تم شائید سمجھ رہی ہو گی کے میں بخار سے تپ رہا ہوں، لیکن ایسا نہیں ہے یہ آگ جس میں میں جل رہا ہوں تمہاری ہی دہکائی ہوئی ہے" یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو میں ان پر گر سی گئی۔ میرے کھلے بال ان کے چہرے پر بکھر گئے اور میرا منہ ان کے اتنا قریب تھا کے ان کی آگ برساتی سانسیں میرے ہونٹ اور گال جلانے لگیں۔ " نبیلہ میں نے ضبط کی بہت کوشش کی ،لیکن تمہیں دیکھ کر ضبط مشکل ہو جاتا ہے" شہزاد بھائی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی لیکن میں تو جیسے گونگی ہو گئی تھی۔ مجھے ان کی سانسوں کی تپش اور مہک نے ہی مدہوش کر دیا تھا۔ "دیکھو جل رہا ہوں نا میں.." یہ کہتے ہوئے انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ماتھے پر لگا دیا۔ ان کا ماتھا سچ میں انگارے کے طرح تھا۔ " جی....جی بھائی" میرے منہ سے بس اتنا ہی نکل پایا۔ شہزاد بھائی دیوانوں کی طرح میرے ہاتھ کو اپنے چہرے پر پھیرے جا رہے تھے۔ جیسے وہ اس طرح سکون پا رہے ہوں۔ سکون تو مجھے بھی حاصل ہو رہا تھا. بیقرار تو میں بھی تھی۔ محبت تو مجھے بھی ہو گئی تھی۔ میری انگلیوں نے شہزاد بھائی کے ہونٹوں کو چھوا تو مجھے لگا انہوں نے اپنی جسم کی حرارت میرے جسم میں منتقل کر دی ہو۔ شہزاد بھائی نے مجھے بازو سے تھوڑا اور کھینچا تو میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں سے جا لگے۔ شائید کوئی دھماکہ ہوا تھا۔ کیونکہ جیسے ہی میرے ہونٹوں نے شہزاد بھائی کے ہونٹوں کو چھوا مجھے لگا کے میرے سارے بدن کو آگ لگ گئی ہو۔ میں شہزاد بھائی کے اوپر ہی گر گئی۔ میرے ہونٹ سوکھ چکے تھے گلا خشک تھا سانسیں جیسے اٹک گئی تھیں۔ "کیا یہ ہم صحیح کر رہے ہیں؟" میرے منہ سی انتہائی نحیف آواز میں سرگوشی سی نکلی ، لیکن پھر ساری سرگوشیاں ، سارے وہم، سارے سوالات، سارا ڈر دم توڑ گئے۔ شہزاد بھائی نے بجائے جواب دینے کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا۔ اور ان کا چومنا پھر چوسنے میں بدلنے لگا۔ اور میں ان کے ہر کھیل میں ان کے ساتھ برابر شریک ہوتی گئی۔ شہزاد بھائی نے یونہی میرے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنا ایک بازو میری کمر کے گرد ڈال دیا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا ہاتھ میری کمر پر گھوم رہا تھا۔ میں جن ہونٹوں کا لمس پا کر ساری رات سپنے دیکھتی رہی تھی وہ ہونٹ اب نہ صرف میری دسترس میں تھے بلکہ میں ان کا رس پی رہی تھے۔ جن ہاتھوں کی ایک ہلکی چپت نے مجھے ساری رات مزے میں مدہوش رکھا تھا وہی ہاتھ میرے جسم کی پیمائش کر رہے تھے۔ جو مدہوشی اور سرور مجھ پر چھا رہا تھا میں اس نشے سے نا آشنا تھی۔ شہزاد بھائی بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے بالکل اپنے اوپر لے لیا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو سہلاتے کبھی میری کمر پر پھیرتے۔ لگتا ایسے تھا جیسے وہ میرے جسم کو اپنے جسم کے اندر سمو لینا چاہتے ہوں۔ مجھ پر بھی دیوانگی کی سی حالت طاری تھی۔ ہم ناگ ناگن کی طرح بیڈ پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ کبھی شہزاد بھائی میرے اوپر ہوتے کبھی میں ان کے اوپر۔ ہمارے جسم انگاروں کی طرح دہک رہے تھے۔ ایسے میں شہزاد بھائی کا لوڑا اکڑ کے سخت ہو چکا تھا۔اوپر نیچے ہوتے جب وہ میرے چوتڑوں کے درمیان لگتا یا پھر چوت کے سات ٹکراتا تو میں مزے سے سرشار ہو جاتی۔ ایسے میں جب شہزاد بھائی میرے اوپر آئے تو وہ دوزانوں میرے پیٹ کے اوپر بیٹھ گئے۔ میں بیڈ کے اوپر چِت لیٹی ہوئی تھی۔ میرے کھلے ہوئے بال میرے چہرے پر بکھر گئے تھے۔ اب تک ہم صرف ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر کے ہونٹوں سے ہی کھیل رہے تھے یا پھر دونوں کمر اور چوتڑوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ شہزاد بھائی نے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور انہیں سرکل کی صورت میرے سر کے اوپر تکیے پر ٹکا دیئے۔ دائیں ہاتھ کو انہوں نے میری کمر کے قریب سے میری قمیض کے اندر ڈال دیا ان کا ہاتھ جیسے جیسے میرے پیٹ سے رینگتے ہوئے میرے بُوبز کی طرف بڑھ رہا تھا میرے جسم میں بھی انجانی سی لہریں پیدا ہو رہی تھیں۔ شہزاد بھائی اپنی گردن کو جھکاتے ہوئے اپنے منہ کو بالکل میرے چہرے کے قریب لے آئے۔ انہوں نے ہلکی پھونک سے میرے بکھرے ہوئے بالوں کو میرے چہرے سے ہٹایا۔ اور اپنے ہونٹوں کے انگارے میرے ہونٹوں کے اوپر رکھ دیئے۔ایسے میں ان کی رینگتی ہوئی انگلیاں بھی میرے بُوبز تک پہنچ چکی تھیں۔ انہوں نے جیسے ہی میرے بُوبز کی نپلز کو چھوا میرے جسم میں پیدا ہونے والی لہریں بہت بُری طرح مرتعش ہو گئیں۔ اور اس ارتعاش نے میرے بدن میں ایک بھونچال برپا کر دیا۔احساسات کو لفظوں کا پہناوا دینا بہت مشکل ہے۔ بلکہ میں یہ کہوں کے ناممکن ہے تو بھی غلط نہ ہو گا۔ احساسات  کو میرے خیال میں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں بھی بیان نہیں کر سکتی کے اصل میں میرے احساسات اور فیلنگز اس وقت کیا تھیں۔ بس یہ کہوں گی جو لُطف و سرور کی کیفیت اس وقت تھی وہ میری سابقہ پوری زندگی میں نہ تھی۔
      میں نشے میں سرشار تھی اور شہزاد بھائی پر جیسے دیوانگی۔ انہوں نے میری قمیض کھینچ کر اوپر اُٹھا دی۔ میرے ملائم سفید پیٹ پر اٹھکھیلیاں کرتی شہزاد بھائی کی انگلیاں اور پھر ان کی زبان۔ میں نیچے بے آب مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بھی بٹھا لیا تو ان کا اکڑا ہوا لوڑا میرے نرم پیٹ میں چُب سا گیا۔ شہزاد بھائی مجھ سے کسی کھلونے کی طرح کھیل رہے تھے۔ اور میں بھی کسی بےمول لونڈی کی طرح اُن کا ہر حکم بجا لا رہی تھی۔ انہوں نے میری قمیض اُتار دی مجھے یوں ان کے سامنے ننگی ہونے میں نہ تو کوئی شرم تھی نہ پشیمانی، شہزاد بھائی میرے سارے جسم کو چاٹ رہے تھے۔ انہوں نے جب میری برا کی ہُک کھولی تو میرے خوبصورت ٹائٹ بُوبز دیکھ کر اُن کی جو حالت ہوئی وہ دیدنی تھی۔ وہ پاگلوں کی طرح کبھی ایک بُوب کو اور کبھی دوسرے بُوب کو چوسنے لگے۔ ان کا اس طرح چُوسنا مجھے بھی بےخود کر رہا تھا۔ وہ میرے بُوبز کو چوستے ہوئے جب نِپلز کو ہونٹوں اور دانتوں سے دباتے تو میری سسکی نکل جاتی۔ اُففففففف ہہہممممم آں ہُُممم کی آوازیں جو اب مسلسل میرے منہ سے نکل رہی تھیں شہزاد بھائی کے پاگل پن کو مزید بڑھا رہی تھیں۔ اور ان کا پاگل پن مجھے ہوا میں اُڑا رہا تھا۔ میں لُطف و سرور کی وادی میں غرق ہو چکی تھی۔ شہزاد بھائی مجھے مسلسل چاٹ رہے تھے۔ اور میں بھی دیوانگی میں ان کے ساتھ تھے۔ وہ چاٹتے چاٹتے نیچے کی طرف جا رہے تھے۔ اور ساتھ ہی میری شلوار کو بھی نیچے سرکا رہے تھے۔ میرا گورا ملائم جسم اب ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔میں لذّت کے سمندر میں غرق ان کے سامنے برہنہ جسم لیٹی تھی۔ میرے جسم پر اب اگر کوئی کپڑا تھا تو وہ میری پینٹی تھی جسے اب اُترنے میں زیادہ دیر نہ تھی۔ شہزاد بھائی نے اپنے کپڑے اُتار کر دور اچھال دیئے۔ ان کے بدن کے تمام مسلز پھڑپھڑا رہے تھے۔ ان کا مضبوط جسم دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اپنے دونوں بازو ان کے بازؤوں کے نیچے سے گُذار کر اُن کی پشت پر اپنے دونوں ہاتھوں سے کنگھا بنا لیا، اور اپنی چھاتی کو ان کی چھاتی سے جوڑ کر سختی سے بھینچ لیا۔ میرے نپلز ان کے نپلز سے ٹکرائے ہوئے تھے  جبکہ ان کے ہاتھ میری ننگی کمر پر مساج کر رہے تھے۔ ان کا لوڑا جو اب کپڑوں سے آزاد تھا میری ناف میں گھسنے کو بیتاب تھا۔میں اپنے نازک پیٹ پر اس لوڑے کی بیقراری محسوس کر رہی تھی۔ اس کی گرمی میں وہ لذت تھی کے بیان نہیں کر سکتی۔ شہزاد بھائی اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھے تھے۔ انہوں نے میری دونوں ٹانگیں اپنے سر کے برابر اٹھائیں تو میرا سر بیڈ پر تکیے پے جا لگا۔ میرا جسم انگریزی حرف L کی صورت ہو گیا۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے میری دونوں ٹانگیں پکڑے رکھیں جب کے دوسرے ہاتھ سے مجھے پینٹی کے جھنجھٹ سے بھی آزاد کر دیا۔ میری چکنی گانڈ اور چھوٹی سی صاف شفاف چوت اُن کی آنکھوں کے سامنے تھیں۔ انہوں نے میری ٹانگوں کو میرے سر کی طرف پُش کر کے مجھے بالکل کمان کی صورت کر دیا۔ اس سے میری گانڈ تھوڑی اور اوپر اُٹھ گئی۔ انہوں نے میرے چوتڑوں پر کِس کی اور پھر زبان نکال کر چاٹنے لگے۔ وہ ایسے چاٹ رہے تھے جیسے میری سکِن پر شہد لگا ہو۔ وہ چاٹتے چاٹتے میری ٹانگوں کے درمیان آ گئے۔ ان کی زبان نے جیسے ہی میری چوت کے لِپس کو ٹچ کیا میری سسکی نکل گئی۔ اُن کی زبان اب تیزی سے میری چوت کے لِپس کو گیلا کر رہی تھی اور میری سسکیاں بھی آہہہہہہ اُووووں ہہہہمممم آآآآں  ہہہہممم اُاُااافففففف کی آواز کیساتھ تیز ہو رہی تھیں۔ اُن کی زبان کی ہر حرکت پر میرے بدن میں لہریں سی دوڑ جاتیں جو کے میرے بدن کو لذت کا وہ سامان مہیا کرتیں کے میں سرشار ہو جاتی۔ مجھے اتنا مزہ آ رہا تھا کے میں نے شہزاد بھائی کا سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور اپنی چوت اُٹھا اُٹھا کر اُن کے ہونٹوں سے رگڑنے لگی۔ انہوں نے بھی میری بیقراری دیکھی تو اپنی زبان کو تیزی سے حرکت دینے لگے ان کی زبان اب میری چوت کے لِپس کے اندر جا چکی تھی۔ میری سسکیاں چھوٹی چھوٹی چیخوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ اور پھر اچانک مجھے سکون سا مل گیا میرا تنا ہوا بدن ڈھیلا پڑنے لگا میرا جسم نم ہو چُکا تھا۔ میری چوت سے نکلنے والا پانی میری گانڈ کی طرف بہہ نکلا۔ شہزاد بھائی نے مجھے پھر مکمل بیڈ پر لٹایا اور وہ میرے سر کی طرف آ گئے۔ میرے ہونٹوں اور بُوبز کو چوم کر وہ دوزانوں میرے سر کے قریب بیٹھ گئے۔ دائیں ہاتھ سے میرے سر کو پکڑ کر تھوڑا اوپر اُٹھایا اور بائیں ہاتھ سے اپنے لوڑے کو پکڑ کر میرے ہونٹوں پر رگڑنے لگے۔ کبھی وہ اسے ہتھوڑے کی طرح میرے گالوں اور ہونٹوں پر مارتے اور پھر رگڑنے لگتے۔انہوں نے لوڑے کو میرے ہونٹوں کے اوپر دو تین بار رگڑا تو میں نے منہ کھول دیا۔ لوڑے کے سر سے میری زبان ٹکرائی تو مجھے ایک نئے ذائقے سے آگہی حاصل ہوئی ۔ میں نے لوڑے کے سر پر اپنی زبان راؤنڈ گھمائی اور پھر گھماتی چلی گئی۔ لوڑے کی مستی بھی عروج پر آنے لگی۔ میں نے لوڑے کو جو چُوسنا شروع کیا تو یہ مجھے دنیا کا سب سے مزیدار لالی پاپ لگا۔ میں نے لوڑے کے گرد ہونٹوں کو سختی سے بند کیا اور زبان کو اس کے اوپر گھمانے لگی لوڑا سخت ہو کر تن تنانے لگا۔ شہزاد بھائی بھی اب لوڑے کو میرے منہ میں دھکے دے رہے تھے۔ جیسے وہ میرے منہ کی چُدائی کر رہے ہوں ۔ ان کا لوڑا میرے حلق کے نیچے تک جا رہا تھا۔ وہ جب اسے دھکا دیتے تو میری سانس بند ہو جاتی۔ گلے سے غُوں غر غُوں  کی آوازیں نکلتی میری آنکھیں باہر اُبلنے کو آتیں اور میرے منہ سے نکلنے والی تھوک میرے گالوں پر پھیل جاتی۔ کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد شہزاد بھائی نے اچانک لوڑا کھینچ کر میرے منہ سے باہر نکالا اور اپنا گرم لاوا میری چھاتی پر گرا دیا۔ مجھے چکناہٹ کا احساس اپنے بُوبز اور سینے پر ہوا تو بے اختیار میرا ہاتھ اپنے سینے پر گیا۔ میں نے سینے پے ہاتھ پھیر کر اوپر اُٹھایا تو گاڑھا لیس دار مادہ میری انگلیوں سی لتھڑا ہوا تھا۔  شہزاد بھائی کے لوڑے سے ابھی بھی یہ لیس دار مادہ نکل رہا تھا۔
شہزاد بھائی پھر میرے اوپر آ گئے۔ انہوں نے اپنے لوڑے کو میرے دونوں  بُوبز کے درمیان رکھا اور میرے دونوں بُوبز کو اپنے ہاتھوں سے لوڑے کے گرد دبا دیا۔ میرے بُوبز اب غار نُما تھے۔ شہزاد بھائی اپنے ڈھیلے پڑتے لوڑے کو اس میں رگڑنے لگے۔ میری چھاتی چکنی تھی جس پر ان کا لوڑا سلپ ہونے لگا اور جیسے ان کے لوڑے میں دوبارہ سے جان پڑنے لگی۔ وہ پھر سے سخت ہو رہا تھا اور میرے بُوبز میں مزے لے رہا تھا شہزاد بھائی جب اسے پیچھے کھینچ کر آگے کو دھکا لگاتے تو وہ میری ٹھوڑی سے ٹکرا جاتا۔ میں نے سر کو پیچھے سے تھوڑا اٹھایا اور منہ کھول دیا۔ اب لوڑے کا سر میرے ہونٹوں سے ٹکرانے لگا۔ میرا ایسا کرنے پر شہزاد بھائی اور جوش میں آئے اور انہوں نے تیزی سے لوڑے کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ میں بھی لوڑا میرے ہونٹوں کے قریب آتا اسے اپنی زبان نکال کر چاٹ لیتی۔ اس سے کچھ ہی دیر میں لوڑا تن تنانے لگا۔ ہمارے جسم جیسے آگ میں سُلگ رہے تھے۔ میری چوت سے پھر پانی نکلنے لگا تھا جبکہ شہزاد بھائی کا لوڑا پھر سے لوہے جیسا سخت ہو چُکا تھا۔ میری چوت میں جیسے آگ بھڑک اُٹھی۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے اسےبُری طرح مسل رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے میری دیوانگی دیکھی تو وہ اُٹھے اور میری ٹانگوں کی جانب ہو گئے۔ انہوں نے میری دونوں ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھیں۔ میری چوت پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرا اور پھر اُنگلی میری چوت کے اندر ڈال دی۔ میری منہ سے ایک سرد سی سسکی خارج ہوئی۔ اور پھر اُنگلی کی ہر حرکت میری سسکیوں کو بڑھا رہی تھی ۔ میری سسکیاں لذت اور درد کے ملے جلے تاثرات لیئے ہوئے تھیں۔ شہزاد بھائی نے لوڑے کو دائیں ہاتھ میں پکڑا اور بائیں ہاتھ پر تھوک کر لوڑے کے سر پر ملنے لگے۔ جب اچھی طرح تھوک لگ گیا تو انہوں نے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے میری چوت کے دونوں ہونٹوں کو الگ کیا اور لوڑے کا سر چوت کے چھوٹے سے سوراخ کے عین اوپر رکھا۔ اور آہستہ آہستہ اسے اندر کی طرف دبانے لگے۔ لیکن وہ اندر جانے کے بجائے سائیڈ پر سلپ ہو رہا تھا۔ جس سے مجھے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ میں درد کے مارے اپنی سانسیں کھینچ رہی تھی۔ شہزاد بھائی  لوڑے کو سیدھا کرتے اور پھر دبانا شروع کرتے تو نتیجہ پھر وہی ہوتا۔ وہ اُٹھے تو ویزلین آئل کے بوتل ڈھونڈھ کے لے آئے بڑی اچھی طرح سے میری چوت کو آئل سے تر کیا اور اُنگلی کی مدد سے سوراخ کے اندر بھی لگایا۔ پھر اپنے لوڑے کو بھی آئل سے خوب نہلایا۔ اب انہوں نے بائیں ہاتھ سے لوڑے کو پکڑ کر اس کے سر کو میری چوت پر رگڑنے لگے جس سے میں بیقرار ہو گئی پھر انہوں نے لوڑے کا سر چوت کے سوراخ پر رکھا اور لوڑے کو اپنے انگوٹھے سے دبائے ہوئے کمر کے زور سے ایک دھکا لگایا تو لوڑے کا سر چوت کے سوراخ کے اندر چلا گیا جبکہ میری چیخ سے کمرا گونج گیا۔ شُکر کے گھر میں کوئی موجود نہیں تھا ورنہ میری چیخ سُن کر دوڑا آتا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ شہزاد بھائی کی رانوں پر رکھ دیئے اور ان پر دباؤ ڈالا تاکہ شہزاد بھائی کا لوڑا میری چوت سے نکل جائے۔ میرے تو پسینے چھوٹ گئے ابھی تو لوڑے کا صرف سر بھی پوری طرح چوت کے اندر نہیں گیا تھا تو درد کا یہ عالم تھا جیسے کسی نے آگ ڈال دی ہو۔ یا پھر کسی نے خنجر سے چوت کاٹ دی ہو۔ پورے لوڑے کا تو تصور ہی دل دہلانے کیلئے کافی تھا۔ شہزاد بھائی کچھ دیر کو ٹھہر گئے پھر جب انہوں نے دیکھا کے میرے ہاتھوں کا دباؤ ان کی رانوں پر کم ہوا ہے تو انہوں نے دوسرا دھکا دیا تو میری پھر سے چیخ نکل گئی۔ میں تڑپ کر رہ گئی پر اس دفع شہزاد بھائی رکے نہیں انہوں نے ایک اور دھکا دیا تو میں بلک پڑی۔ ان کا آدھا لوڑا میری چوت کو چیرتے ہوئے اندر چلا گیا تھا۔ میں بچوں کی طرح روتے ہوئے اوئی ماں، ہائے ماں کی آوازیں نکال رہی تھی مجھے لگا کے میری سانسیں رک جائیں گی۔ میرا حلق میرے ہونٹ ایکدم خشک ہوگئے تھے۔ میں تڑپ رہی تھی لیکن شہزاد بھائی کی گرفت زیادہ مضبوط تھی۔انہوں نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگا دیئے وہ یونہی چُوس چُوس کر میرے ہونٹوں کو تر کرتے رہے۔ ان کے ہاتھ میرے بُوبز کے نپلز کو مسل رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے پھر ریلیکس ہوتے دیکھا تو ایک بار پھر ایکشن میں آئے۔ اب کی بار انہوں نے لوڑے کو پہلے آرام سے پیچھے کھینچا لیکن مجھے لگا کے ان کے لوڑے کے ساتھ ہی میری انتڑیاں بھی چوت کے رستےباہر آ جائیں گی۔ میں نے اپنے نچلے ہونٹ کو زور سے دانتوں کے نیچے دبا رکھا تھا اور درد کی شدت کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ شہزاد بھائی نے لوڑے کو سر تک چوت سے باہر کھینچا اور پھر زور سے لوڑے کو اندر کی طرف دھکا دے دیا۔ میں لوڑے پر لگے اپنے دوشیزگی کے خون کو دیکھ چُکی تھی اور شہزاد بھائی نے مجھے اشارہ کر کے اہتمام سے دکھایا تھا میں اب کنواری نہیں رہی۔ اور لڑکی سے عورت ہو گئی ہوں ۔اب وہ رکے نہیں بلکہ وہ لوڑے کو آہستہ آہستہ باہر کھینچتے اور پھر اندر کو دھکا لگا دیتے۔ میں بلک بلک کر رو رہی تھی۔ ان کو واسطے اور منتیں کر رہی تھی لیکن وہ جیسے سُن ہی نہیں رہے تھے۔ جیسے میری چیخیں اور میرا رونا اُن کو مزہ دے رہا تھا۔ میرا تڑپنا انہیں لذت دے رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسووں جاری تھے اور میں بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔ ان کے ہر دھکے سے یوں لگتا جیسے میری چوت کٹ رہی ہے۔ مجھے لگتا جیسے میرے پیٹ کے اندر ہر شے میری چوت کے رستے باہر آ جائے گی۔ میری چوت جس میں تھوڑی دیر پہلے تک اُنگلی ڈالنا محال تھی اُس میں شہزاد بھائی نے اپنا اتنا موٹا لوڑا ٹھونس دیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے شہزاد بھائی مجھے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیں گے۔ سیکس کا کھیل بھی عجیب ہوتا ہے۔جب آپ اسے شروع کرتے ہو تو آپ کی سانسیں بےترتیب ہو جاتی ہیں اور جیسے جیسے آپ لذت کی منازل طے کرتے ہو آپ کی بےترتیب سانسیں سسکیوں میں اور پھر سسکیاں چیخوں میں بدلتی ہیں اور جب آپ لذت کی بُلندی کو پاتے ہو تو چیخیں جنون کی صورت آپ کو دیوانہ کر دیتی ہیں۔ اور دیوانگی میں آپ لذت کی انتہا کو پاتے ہو۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب نہ کچھ سنائی دیتا ہے نہ کچھ دکھائی دیتا ہے۔ نہ کوئی خوف آپ کو ڈرا سکتا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے۔ میری چیخوں میں بھی آہستہ آہستہ کمی آنے لگی۔ اب بے معنی آوازیں میرے منہ سے خارج ہو رہیں تھیں۔ میری چوت کی دیواریں شہزاد بھائی کے لوڑے کو قبول کر چکی تھیں۔ انہوں نے لوڑے کو اس کے سائز کے مطابق اسے جگہ دے دی تھی۔ اب جب اوپر سے دھکا لگتا تو میں گانڈ اُٹھا کر نیچے سے دھکا دیتی۔ میرا یہ عمل شہزاد بھائی کے جنون کو بڑھا گیا۔ وہ جیسے کسی مشین کی طرح چل پڑے۔ اب درد کی جگہ لذت حاصل ہو رہی تھی۔ جس طرح شہزاد بھائی کوشش کر رہے تھے کے وہ کسی نا کسی طرح لوڑے کو زیادہ سے زیادہ چوت کے اندر تک لے جائیں اسی طرح میری خواہش بھی ہوتی کے میں ان کے لوڑے کی جڑ تک کو اپنی چوت میں سمیٹ لوں۔ اسی لیئے میں نے اپنے دونوں ہاتھ اُن کے چوتڑوں پر سختی سے جمائے ہوئے تھے۔ اور وہ جب بھی لوڑے کو چوت میں دھکا لگاتے میں  دونوں ہاتھوں سے ان کی گانڈ پر نیچے کی جانب دباؤ بڑھاتی اور نیچے سے اپنی گانڈ اوپر اٹھاتی تا کہ لوڑا زیادہ سے زیادہ چوت کے اندر جا سکے۔ شہزاد بھائی کے دھکے تیز ہوئے تو ہمارے منہ سے نکلنے والی اووں آآآآں کی آوازیں بھی بلند ہو گئیں۔ چوت سے پچ پچ کی نکلنے والی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ دھکے دیتے دیتے شہزاد بھائی جب تھک جاتے تو تھوڑا ٹھہر کر پھر شروع ہو جاتے۔ مجھے لگا کے میری چوت جو بھٹی کی طرح جل رہی ہے اس کی آگ شائید بجھنے والی ہے۔ میرا جسم اکڑ گیا تھا اور پھر جیسے ہی چوت نے پانی چھوڑا میں ایکدم ریلیکس ہونے لگی شہزاد بھائی ابھی تک زور زور سے دھکے دے رہے تھے پھر ان کا نچلا ہونٹ ان کے دانتوں کے نیچے آیا اور آنکھیں بند ہوئیں ۔زوردار آآآآآآآآآ کی آواز ان کے منہ سے خارج ہوئی اور لوڑے سے پچکاری۔ وہ بھی آسمان کی بلندیوں سے واپس زمین پر آ رہے تھے۔ ہم دونوں چھوٹ چُکے تھے میری چوت جھیل بن گئی تھی شہزاد بھائی اور میں نے خود جو پانی چھوڑا تھا وہ رانوں سے بہہ کر نیچے میری گانڈ تک چلا گیا۔ ہم دونوں کے جسم پسینے سے شرابور تھے۔ شہزاد بھائی میرے اوپر ہی گر گئے۔ چند لمحوں تک تو ہم ایسے ہی پڑے رہے پھر سر اُٹھا کر ایکدوسرے کی طرف دیکھا۔ مُسکراہٹ دونوں کے لبوں پر تھی۔ مسکراتے ہوئے ہم دونوں نے ایکدوسرے کے ہونٹ چومے اور پھر زُبانیں لڑانے لگے۔

گُناہگار

گُناہگار
سعدیہ میری بہن ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے۔ میں بھی بہت سے بھائیوں کی طرح ہی ہوں اور اپنی بہن کو بہت چاہتا بھی ہوں اور میری یہ چاہت ایک بھائی کی طرح کی ہی ہے۔ لیکن ایک گناہ جو مجھ سے سرزد ہو گیا اس پر بہت شرمندہ ہوں اور جانتا ہوں کے اس کا کفارہ ممکن نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کے اس گناہ کے کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے جو میں اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے دوں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سعدیہ کچھ دنوں سے ہماری خالہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ کیونکہ سکول میں اس کے امتحان ہو چکے تھے اور وہ فارغ تھی۔ حمیرا جو ہماری خالہ زاد ہے نے بہت اصرار کر کے امی جان سے سعدیہ کو اپنے ہاں کچھ دن کیلئے لے جانے کی اجازت لے لی تھی۔ اور جیسے ہی سعدیہ امتحانوں سے فارغ ہوئی حمیرا اسے لینے  کیلئے اپنی ماں کے ساتھ آ دھمکی۔ اور آج تقریباً دو ہفتے ہونے کو تھے کہ سعدیہ اُن کے ہاں رہ رہی تھی ۔امی جان نے مجھے کہا کہ میں خالہ کے گھر سے سعدیہ کو لے آؤں۔ میں نہا دھو کر تیار ہوا اور موٹرسائیکل نکال کے خالہ کے گھر کے لیئے روانہ ہوا۔ خالہ کا گھر ایک دوسرے گاؤں میں تھا جو کے ہمارے گاؤں سے چودہ پندرہ کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ میں کوئی آدھے گھنٹے میں ہی خالہ کے گھر جا پہنچا۔ حال احوال کے بعد حمیرا چائے بنا کر لے آئی۔ چائے پی چُکنے کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو خالہ نے کہا کے اتنی جلدی کیا ہے ابھی آئے اور ابھی چل دیئے۔ آرام سے بیٹھو کھانا وغیرہ تیار ہوتا ہے تو کھا کر آرام سے چلے جانا۔ اب خالہ کہہ رہی تھیں تو میں انکار کیسے کرتا ویسے بھی میرا دل چاہ رہا تھا کے میں کچھ دیر اور یہیں رکوں کیونکہ میں دل ہی دل میں حمیرا کو بہت پسند کرتا تھا۔ اور اس کو بارہا دل ہی دل میں اپنی بیوی کے روپ میں دیکھ چُکا تھا۔ میں نے بھی موقع مناسب جانا اور سوچا کے چلو اسی بہانے کچھ دیر اس کے ساتھ بھی وقت بیت جائے گا۔
    خالہ نے اسے کہا کے جلدی سے کھانا تیار کرو۔ اور خود میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔ ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کے خالہ کے پڑوس سے ایک عورت آگئی۔ خالہ اس عورت کے پاس بیٹھ گئیں تو میں چُپکے سے وہاں سے اُٹھا اور کچن میں چلا گیا جہاں حمیرا کھانا بنا رہی تھی۔ سعدیہ بھی اُس کی بھرپور مدد کر رہی تھی۔ میں سائیڈ پر کھڑا ہو کے اُن سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی کھانا بناتے ہوئے مجھ سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں چور نگاہوں سے حمیرا کے بھرپور سراپے کا بھی جائزہ لے رہا تھا۔ وہ یقیناً قدرت کا شاہکار تھی۔   وہ بھی سعدیہ کی ہی ہم عمر تھی۔ گورے رنگ کے ساتھ خوبصورت اور پر فیکٹ فِگر اُس پر قیامت خیز لباس مجھ پر بجلیاں گرا رہے تھے۔ اس کی ہر ہر ادا پر میری جان نکل رہی تھی۔ میں باتیں تو اُن کے ساتھ کر رہا تھا لیکن لیکن دماغ سے میں کسی اور ہی دُنیا میں تھا۔
   وہ دونوں کھانا بنانے میں مصروف تھیں جبکہ میں حمیرا کے سحر میں گرفتار تھا۔ میں بار بار بہانے بہانے سے اُس سے ٹکرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ دو تین دفعہ میں نے اپنے کندھے سے اُس کے مموں کو دبایا تھا جبکہ ایک آدھ دفعہ ہاتھ اس کی گانڈ پر بھی لگایا تھا۔ میں سرور اور مستی کی سی کیفیت میں تھا۔ حمیرا سے چھونا اُسے بُرا نہیں لگا تھا یا پھر اُس کی نظر میں یہ سب حادثاتی تھا۔ کیونکہ کوئی خاص ری ایکشن اُس کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ پر سچ بات یہ ہے کے میری حالت غیر تھی۔
   خیر کھانا تیار ہوا اور ٹیبل پر لگا دیا گیا۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا ۔ اس کے بعد میں نے خالہ سے اجازت چاہی تو انہوں نے بھی اجازت دیتے ہوئے کہا کے دھیان سے جانا راستے میں موٹرسائیکل چلاتے ہوئے مستی نہ کرنا۔ میں نے جی اچھا کہہ کر سعدیہ کو چلنے کو کہا۔ سعدیہ بھی تیار تھی بس اُس نے کپڑے تبدیل کرنے تھے۔ وہ پانچ منٹ میں کپڑے تبدیل کر کے آ گئی۔ ہم گھر کیلئے نکلے تو شام ہونے کو تھی لیکن فاصلہ کوئی بہت زیادہ نہیں تھا اس لیئے کوئی زیادہ فکر بھی نہ تھی۔ سعدیہ ہلکے پیلے رنگ کی قمیض جبکہ سفید شلوار اور دوپٹّے میں قیامت لگ رہی تھی۔ ہم ابھی کوئی آٹھ نو  کلومیٹر ہی آئے ہوں گے کے کھڑاک کی ایک سخت آواز کے ساتھ موٹر سائیکل کی چین ٹوٹ گئی۔ میں نے اپنے طور پر اسے مرمت کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ آس پاس کسی مکینک کا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ یہ چند دیہاتوں کو ملانے والی ایک چھوٹی سی روڈ تھی۔ اور میں اگلے تمام راستے تک اسے دھکیل کر بھی نہیں لے جا سکتا تھا۔ میں نے دیکھا کے کوئی پانچ چھ سو گز دور ایک گھر تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کے موٹرسائیکل اس گھر میں کھڑی کر کے باقی تمام فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اور موٹرسائیکل کو دھکیل کر اُس گھر تک لے گیا۔ گھر کے مکین اچھے تھے اُنہوں نے بھی وہاں موٹرسائیکل کھڑی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہاں پر موٹرسائیکل چھوڑنے کے بعد میں اور سعدیہ پیدل ہی گھر کیلئے روانہ ہوگئے۔ سڑک سے ہٹ کر ایک اور راستہ بھی ہمارے گاؤں کی طرف جاتا تھا جو کے نسبتاً چھوٹا تھا ہم اُسی راستے پر ہو لیئے۔ تا کہ جلد سے جلد گھر پہنچ سکیں۔ لیکن کہتے ہیں نا کے مصیبت آنی ہو تو چھوٹی مسافتیں بھی لمبی ہو جاتی ہیں۔ کُچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہونے جا رہا تھا۔ سعدیہ اور میں نے ابھی مُشکل سے ایک آدھ کلومیٹر ہی طے کیا ہو گا کہ آسمان یکا یک بادلوں سے بھرنے لگا۔ ہم اپنی بساط بھر تیز تیز چلنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بارش شروع ہوگئی۔ ہم دونوں بہن بھائی بالکل اکیلے تھے دُور دُور تک کسی انسان کا نام نشان نہیں تھا اور راستہ بھی قدرے سُنسان تھا اُس پر بارش نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہمارے کپڑے بُری طرح سے بھیگ چُکے تھے۔ ہم نے خود کو بارش سے بچانے کیلئے درختوں کے ایک گھنے جھُنڈ کی اوٹ لی۔ بارش مزید تیز ہو رہی تھی جبکہ اندھیرا بھی بڑھ رہا تھا۔ سعدیہ کُچھ بھیگنے کی وجہ سے اور کُچھ اس سُنسان جگہ پر خوف کی وجہ سے بُری طرح سے کانپ رہی تھی۔ میں اُس کا دھیان بٹانے کیلئے اُس سے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا تاکہ اس کا دھیان باتوں میں لگا رہا تاکہ اُسے خوف اور سردی کا احساس نہ ہو۔ لیکن اُس کی حالت غیر سے غیر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ میرے ساتھ بالکل چپک کر کھڑی تھی۔ میں اُسے دلاسہ دیئے جا رہا تھا کہ ابھی بارش رُک جائے گی اور ہم گھر پہنچ جائیں گے۔ لیکن بارش تھی کے مزید رفتار پکڑ رہی تھی۔ بھائی مُجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ سعدیہ نے انتہائی کانپتی آواز میں بمشکل کہا۔ میں نے اُسے کہا کے اپنے بیگ سے چادر یا کوئی اور کپڑے نکال کر لپیٹ لو، " لیکن بھائی بیگ تو موٹرسائیکل کے ساتھ ہی رہ گیا۔سعدیہ نے انتہائی معصومیت سے کہا۔ میں بھی بُدھو ہی تھا کہ اندازہ ہی نہیں کر پایا کے ہم خالی ہاتھ ہی بھاگے چلے آرہے تھے۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا سوائے اس کے کہ سردی کو برداشت کیا جائے ۔ لہذا میں نے سعدیہ کو یہی کہا کہ سردی کو برداشت کرے۔ اور ہمت سے کام لے لیکن۔ وہ نازک اندام نہ تو برداشت ہی کر پا رہی تھی اور نہ ہی اُس کے پاس ہمت تھی۔ قریب تھا کہ وہ گر جاتی میں نے فوراً اُسے سنبھالا دیا۔ اور اُسے اپنے دونوں بازؤوں میں سمیٹ لیا۔ وہ بہت بُری طرح کانپ رہی تھی۔ اُس کی یہ حالت دیکھ کر مُجھے بھی ڈر سا لگ گیا۔ میں نے باری باری اُس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھوں سے رگڑنا شروع کیا تاکہ اُسے کُچھ حرارت پہنچا سکوں۔ لیکن ایسا کرنا کچھ فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ میں سعدیہ کا سر اپنی گود میں لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اور اس کے دونوں ہاتھوں کی مالش کر رہا تھا۔ لیکن اُس کی حالت بدستور غیر سے غیر ہو رہی تھی۔ میں نے اُسے کھینچ کر گود میں لے لیا۔ بڑی عجیب سی کیفیت تھی۔ میں درخت سے ٹیک لگائے ٹانگیں لمبی کر کے بیٹھا تھا جبکہ سعدیہ کو میں نے گود میں لیا ہوا تھا۔ اُس کا سر میرے بائیں کندھے پر تھا جبکہ میں نے اپنے دونوں بازوں اُس کے بازؤوں کے نیچے سے گُذار کر اُس کی پُشت پر لے گیا تھا۔ اور اپنے بازؤوں سے اسکے سینے کو اپنے سینے سے بھینچ رکھا تھا۔ اب میں دائیں ہاتھ سے سعدیہ کی کمر کو رگڑ رہا تھا تاکہ اس کو کچھ نہ کچھ حرارت ملتی رہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کے میں جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ ایک بھائی کی بہن کیساتھ خالص برادرانہ شفقت کے سوا کچھ نہ تھا۔ سعدیہ کی کپکپاہٹ کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔ سردی کے مارے اُس کی حالت بُری تھی۔ میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اُس کی کمر پر رگڑ رگڑ کر اُس کو حرارت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک سعدیہ کی قمیض کچھ ہٹ گئی اور میرا ہاتھ اُس کی ننگی کمر پر چلا گیا۔ مجھے اس کا جسم بہت ٹھنڈا لگا۔ میں ادھر ہی اُس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ وہ کیفیت کیا تھی میرے لیئے اس کا اظہار اتنا آسان نہیں ہے۔ بہرحال میں نے اپنا ہاتھ سعدیہ کی کمر پر نیچے سے اوپر تک پھیرنا شروع کر دیا۔ سعدیہ تقریباً نیم بیہوشی کی سی حالت میں تھی اور آنکھیں بند کیئے میرے ساتھ چپک کے لگی ہوئی تھی ۔ اُس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے پر اُس نے میری طرف آنکھ کھول کے دیکھا اور پھر آنکھ کو بند کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے لگا کے سعدیہ کا جسم ابھی بھی ٹھنڈا ہے لیکن پہلے جیسا نہیں تو میں نے اسے اٹھا کر پوری طرح اپنی گود میں اس طرح لیا کے اس کی دونوں ٹانگیں میری کمر کی دونوں اطراف میں تھیں اس کا منہ میری طرف تھا اور ہم دونوں کے سینے جُڑے ہوئے تھے۔جبکہ میرے دونوں ہاتھ اب اس کی کمر پر تھے۔ میں دونوں ہاتھ اوپر سے نیچے تک اس کی کمر پر پھیرنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا شائید جب ایک بھائی کی شفقت ایک مرد کی چاہت میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اور اسی کمزور لمحے میں میں سعدیہ کے جسم سے مزہ لینے لگا۔ مجھے ناف کے نیچے اپنی ٹانگوں کے درمیان ہلچل سی محسوس ہوئی۔ اور میرے ہاتھ سعدیہ کی کمر پر اوپر گردن کے قریب سے لے کر نیچے اسکے کولہوں تک حرکت کر رہے تھے۔ ان ہی لمحوں میں میں نے سعدیہ کے بریزیئر کی ہُک بھی اُٹھا دی۔ میرے ہاتھ آزادانہ اُس کی پوری کمر کی پیمائش کر رہے تھے۔ میں نے دھیرے دھیرے اپنے ہونٹوں کو سعدیہ کے کان کی لو کے بالکل نیچے اس کی گردن پر لگا دیا۔ میرا لن بڑی تیزی سے سختی پکڑ رہا تھا۔میرے ہاتھ اب کمر سے ہوتے ہوئے سعدیہ کے مموں کی جانب بھی بڑھ رہے تھے۔ میرے ہونٹ گردن سے ٹھوڑی اور گالوں تک کی مسافت کر رہے تھے۔ میں اپنے ہونٹ اب سعدیہ کے منہ تک لے گیا اور آہستہ سے اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما دیئے۔ میرے ہاتھ اب مزید نیچے کی طرف سعدیہ کی چوتڑ تک سہلا رہے تھے۔ سعدیہ کی شلوار میں الاسٹک ہونے کی وجہ سے میرے ہاتھوں کو نیچے تک جانے میں کچھ رکاوٹ نہیں ہو رہی تھی۔ میرا لن پوری طرح کھڑا ہوگیا تھا اور وہ شلوار کے اوپر سے ہی سعدیہ کی پھُدی سے رگڑ کھائے ہوئے تھا۔ میں ایک بھائی کی بجائے ایک عام مرد تھا اور سعدیہ میرے لیئے بس ایک عورت ہی تھی۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ہاتھ سے اپنا آزاربند کھولا پھر دونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو اوپر اُٹھا کر اس کی شلوار کو نیچے کھینچ لیا۔سعدیہ جو پہلے صرف کسمسا رہی تھی۔ جیسے ہی اس کی ننگی گانڈ میرے برہنہ لن کے ساتھ لگی اسے بھی شائید جھٹکا سا لگا۔ اس کی آنکھیں بھی کھل گئیں اور اس کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا بھائی کیا کر رہے ہو۔ لیکن یہ وہ وقت تھا شائید جہاں سے پیچھے نہیں جایا جا سکتا۔ میں نے بھی گویا کچھ نہیں سُنا تھا۔ نہ میرے ہاتھ رُکے نہ ہونٹوں نے اپنا کام روکا اور نہ ہی میرے لن کو کوئی فرق پڑا۔ میرا لن سعدیہ کی پھُدی سے رگڑ کھاتا ہوا اُس کی ناف سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نے اُدھر ہی جھٹکے دے کر لن کو ناف اور پھُدی سے رگڑنا شروع کر دیا جبکہ میرے ہاتھ سعدیہ کے گول مٹول مموں کا مساج کر رہے تھے۔ جبکہ سعدیہ کے ہونٹوں کو میں اب باقاعدہ چوس رہا تھا۔ سعدیہ اب ہوش میں آ چُکی تھی اور خود کو چھڑانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔ لیکن یہ اب اس کیلئے شائید ممکن  نہیں تھا۔بھائی مت کرو ایسا، بھائی ہوش کرو، بھائی رکو وغیرہ کے بہت سے جملے میرے کانوں سے ٹکرا رہے تھے، لیکن میں سب ان سُنی کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہا۔میرے نہ تو جھٹکے رُکے نہ اس کے ہونٹ چومنا رکے اور نہ ہی میرے ہاتھ۔ سعدیہ کے بدن کو حرارت دیتے دیتے میرے اپنے اندر الاؤ بھڑک اُٹھا تھا۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کے سعدیہ کا جسم بھی اب پہلے سا ٹھنڈا نہیں بلکہ اس کا پورا بدن بھی گرم تھا۔ مجھے اب یہ بھی لگ رہا تھا کہ سعدیہ اب خود کو چھڑانے کی بھی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ میں نے اسی طرح اپنے لن کو سعدیہ کی پھُدی پر رگڑتے ہوئے جھٹکے جاری رکھے۔ جبکہ اب میں سعدیہ کی دونوں نپلز کو مسل رہا تھا جس پر سعدیہ کے منہ سے سسکاری سی نکل رہی تھی۔
   ہماری پوزیشن اب بھی وہی تھی۔ یعنی میں اپنی ٹانگیں لمبی کیئے درخت کے ساتھ بیٹھا تھا اور سعدیہ میری طرف منہ کیئے ہوئے میری رانوں پر بیٹھی تھی، جہاں میرا لن اس کی پھُدی سے رگڑ کھاتے ہوئے اس کی ناف سے ٹکرا رہا تھا۔ میرا لن تن کر لوہے کی طرح سخت اور کسی انگارے کی طرح گرم ہو چُکا تھا۔ اسی لمحے مجھے لگا کہ سعدیہ کے ہاتھ بھی آہستہ آہستہ میری کمر پر گھوم رہے ہیں اور ان کی گرفت بھی سخت ہو رہی ہے۔ مجھ پر گویا ایک جنون کی سی کیفیت طاری تھی۔ میری سوچ سمجھ سب مفلوج ہو کےرہ گیا تھا۔ سعدیہ کے اس عمل سے مجھے اور ہمت ہوئی میں نے دیکھا کے سعدیہ بھی جیسے ہلکے ہلکے جھٹکے لے رہی تھی اور شائید میرے لن کا اُس کی پھُدی سے رگڑ کھانا اُسے بھی مزا دے رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کے میں جب بھی اپنے لن کو اُس کی پھُدی سے رگڑتے ہوئے اوپر اُٹھاتا وہ پھُدی سے میرے لن پر اپنا دباؤ بڑھاتی۔ اس کی پُھدی نے پانی چھوڑنا شُروع کر دیا جو کہ مُجھے اپنے لن پر محسوس ہو رہا تھا۔ میں مسلسل سعدیہ کے ہونٹوں کو چُوس رہا تھا جبکہ دائیں بازو سے اُس کی کمر کے گرد اپنی گرفت مضبوط کیئے ہوئے تھا۔جبکہ بایاں ہاتھ اُس کے پورے جسم کی پیمائش کر رہا تھا۔ میں نے اب اگلا قدم لینے کا فیصلہ کیا۔ میرا بایاں ہاتھ اب سعدیہ کی ٹانگوں کے درمیان ٹھیک اُس کی پھُدی پر تھا۔ میرے ہاتھ کی درمیانی اُنگلی سعدیہ کی پھُدی کے دونوں ہونٹوں کے درمیان میں تھی۔ کُچھ دیر میں نے سعدیہ کی پھُدی پر یونہی ہاتھ پھیرتا رہا پھر میں نے اپنی اُنگلی کو پھُدی کے اندر ڈال دیا۔ بہت تنگ سوراخ تو تھا ہی بُہت زیادہ گرم بھی تھا۔ اُنگلی جیسے ہی پھُدی کے اندر گئی سعدیہ کی چیخ بھی نکل گئی۔ میں نے کچھ لمحوں کیلئے ہاتھ روک لیا اور پھر دوبارہ سے اُنگلی کو مزید اندر کیا تو سعدیہ پھر چیخ پڑی۔ میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک لمبی کس کی اور دونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی گانڈ کو اوپر اٹھایا اور اپنے لن کو ٹھیک اُس کی پھُدی کے ہونٹوں کے بیچ ٹکا دیا۔ اور لن کے ٹوپے کو سوراخ پر دھیرے دھیرے رگڑنے لگا۔ سعدیہ کی پھُدی سے نکلنے والا پانی بہت گھنا اور چکنا تھا جس سے میرے لن کا پورا ٹوپا بھیگ کر چکنا ہو چکا تھا یہی وجہ تھی کے وہ سوراخ میں جانے کے بجائے آگے پیچھے پھسل رہا تھا۔ سعدیہ ابھی تک کنواری تھی اور اس کی پھُدی کا سوراخ بہت چھوٹا اور تنگ تھا جبکہ میرا لن آٹھ انچ لمبا اور تقریباً ڈیڑھ انچ گولائی میں موٹا تھا۔ سعدیہ بیہوشی سے مدہوشی تک آ گئی تھی۔ وہ بھی سیکس میں پورا مزہ لے رہی تھی۔ میں نے اپنے بائیں ہاتھ سے لن کو پکڑ کر سعدیہ کی پھُدی کے عین سوراخ پر رکھ کر تھوڑا سا دباؤ ڈالا تو لن کا ٹوپا تھوڑا سا پھُدی کے اندر چلا گیا لیکن اسی وقت سعدیہ کی ایک دلخراش چیخ بھی نکلی جس سے میرے دل میں اُس کیلئے رحم جاگا پر شیطان مردود آج رحمدلی کے سارے جذبوں کو قتل کرنے پر آمادہ تھا۔ میں نے چند لمحے انتظار کے بعد دوبارہ لن کو جھٹکا دیا اس بار بھی سعدیہ کا ردعمل ویسا ہی تھا۔ ایک اور چیخ "اوئی ماں میں مر گئی" کے الفاظ کے ساتھ اس کے منہ سے نکلی۔ اس دفعہ لن کا ٹوپا اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا لن کسی شکنجے میں جکڑ گیا ہو۔ سعدیہ شدید درد کی کیفیت میں تھی وہ درد کے مارے پیچھے کو جھُک گئی۔ میرے دونوں ہاتھ اب اُس کے کولہوں پر تھے اور میں اُس کے پیٹ پر بوسے دے رہا تھا۔ وہیں سے میں نے کولہوں پر نیچے کی جانب دباؤ ڈالا جبکہ نیچے سے لن کو اوپر کی جانب زرا زور سے جھٹکا دیا۔ کوئی دو ڈھائی انچ تک لن پھُدی کے اندر تھا لیکن ابھی اسے کُچھ اور مسافت طے کرنی تھی۔ سعدیہ سے شائید اب برداشت نہیں ہو رہا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے مجھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ " بھائی میں مر جاؤں گی، بھائی پلیز اسے باہر نکالو، ہائے ماں میں کیا کروں، " میں نے اُس کی کمر کے گرد اپنے بازؤوں کا گھیرا بنا کر مضبوطی سے پکڑ لیا، اور وہیں سے اسے ایک اور جھٹکا دیا۔ لن آہستہ آہستہ اندر جا رہا تھا جبکہ سعدیہ کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ مسلسل کہے جا رہی تھی۔" بھائی قسم سے میں مر جاؤں گی، میری پھُدی جل رہی ہے، پلیز اسے نکالو باہر، بہت درد ہو رہی ہے،" میں جیسے گونگا بہرا ہو گیا تھا۔ اس کی کسی بات پر کوئی دھیان نہیں دے رہا تھا۔ اُس وقت مُجھے بس ایک ہی دھیان تھا، وہ یہ کے کس طرح سے لن کو مکمل پھُدی کے اندر گھسیڑنا ہے۔ اور میں اپنی پوری کوشش بھی کر رہا تھا۔ اس کوشش میں میں ابھی آدھا ہی کامیاب ہوا تھا۔ سعدیہ واقعی میں مری جا رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں پوری کھُلی تھیں اور چہرے کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ شائید یہ درد کی شدت ہی تھی جسے وہ برداشت کر رہی تھی۔ اب کی بار میں نے جھٹکا دیا تو وہ بلبلا کر اُچھل پڑی۔ اُس کا اُچھلنا اتنا اچانک اور شدید تھا کہ وہ میری گرفت سے نکل کر پرے جا پڑی۔ میرا لن پھُدی سے نکل گیا اور وہ جیسے سخت غُصے میں تن تنا رہا تھا۔ جبکہ سعدیہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھُدی پر رکھ دیئے۔ وہ پھُدی کو دونوں ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے منہ سے پھونکیں مارنے لگی جیسے حقیقت میں اُس کی پھُدی جل گئی ہو اور وہ اُسے پھونکیں مار کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اسی وقت اسے اپنے ہاتھوں پر لگا خون نظر آیا تو وہ زور سے رونے لگی۔اپنے دونوں ہاتھوں کو میری آنکھوں کے بالکل سامنے لاتے ہوئے پوچھا بھیا یہ خون کیسا ہے؟ آپ نے کیا کیا میرے ساتھ؟ میں مر جاؤں گی بھائی۔ وہ بہت ڈر گئی تھی۔ میں نے اُسے بازو سے پکڑ کر قریب کرتے ہوئے کہا کے کُچھ نہیں ہوا۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے اور زندگی میں ایک ہی بار ہوتا ہے۔ تم نے جو درد اٹھانا تھا وہ اٹھا لیا اب وہ مزہ شروع ہونا تھا جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے اس کا ڈر ختم کرنے کیلئے اسے بانہوں میں بھر کے اس کے ہونٹوں پر اُس کی گردن کندھوں اور مموں پر بوسے دینے شروع کر دیئے۔ اور ساتھ ساتھ میں اسے بتا بھی رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ میں بار بار اُسے آنے والے مزے کا کہہ رہا تھا تاکہ اُس مزے کیلئے تجسس پیدا ہو اور وہ جلد سیکس کیلئے دوبارہ آمادہ ہو جائے۔ آگ تو اُسے بھی جھُلسائے ہوئے تھی۔ جلد ہی مجھے لگا کے وہ اب نہیں روکے گی۔ میں نے اُسے پکڑ کے واپس اُسی پوزیشن پر بٹھایا۔ میں اب جلدی میں تھا میں نے لن کو تھوک سے گیلا کیا اور پھُدی پر رکھ کر زور کا جھٹکا دیا۔سعدیہ اب کی بار بھی تڑپ کر رہ گئی لیکن اب میری گرفت بہت مضبوط تھی۔ میں نے دوسرا پھر تیسرا جھٹکا دیا تو لن اپنی آدھی منزل طے کر چکا تھا۔ سعدیہ اب کی بار بھی چیخ رہی تھی۔ بھائی رک جاؤ، بھائی اس کو نکالو بہت درد ہو رہی ہے، میں مر جاؤں گی، میں نے اس کے ہونٹوں کو چُوستے ہوئے کہا سعدیہ یقین کرو تمہیں کُچھ نہیں ہو گا اس کے تمہارے اندر جانے سے تم نہیں مرو گی پر اگر میں نے اس کو نکال لیا تو میں ضرور مر جاؤں گا۔ میں مسلسل جھٹکے دے رہا تھا اور ہر جھٹکے کے ساتھ لن پھُدی کے اندر غرق ہو رہا تھا۔ ہر جھٹکے پر سعدیہ تڑپ اُٹھتی۔ ہر جھٹکے کے بعد اگلے جھٹکے کے لیئے میرا جوش اور بڑھ جاتا۔ میرا پورا لن سعدیہ کی پھُدی کے اندر پہنچ گیا۔پھُدی اتنی تنگ تھی کے میرے لن پر شکنجہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ پھُدی کی دیواروں نے پوری طرح لن کو جکڑ لیا تھا۔ اور لگ رہا تھا جیسے لن آگ میں رکھ دیا ہو۔ سعدیہ کی آنکھیں بند منہ کھلا ہوا جبکہ ہونٹ خشک تھے جن کو میں چُوس چُوس کر تر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔  میں کچھ دیر کیلئے رکا، میں اس احساس کو کُچھ دیر برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ سعدیہ سے پوچھا کے اب بھی درد ہو رہی ہے تو اُس نے بتایا کہ اب درد کم ہے اور عجیب سی پُرلطف کیفیت ہے، میں نے اُسے کہا کے اب درد نہیں رہے گا اور تم کو بہت مزہ آئے گا۔ پھر میں نے لن کو پھُدی کے اندر ہی گھُمانا شروع کیا چند لمحوں کے بعد میں نے لن کو آہستہ آہستہ واپس کھینچا اور ٹوپے تک باہر آ جانے دیا اور پھر جھٹکے سے اسے واپس پھُدی کے اندر دھکیل دیا۔ سعدیہ کی ایک مرتبہ پھر آہ نکلی۔ لیکن اب اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ میں نے لن کو اندر باہر دھکیلنے کا عمل دھیرے دھیرے جاری رکھا۔ سعدیہ آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی جبکہ اُس کا مُنہ کھلا تھا اور جب بھی میں لن کو اندر دھکیلتا اُس کا مُنہ تھوڑا اور کُھل جاتا۔ میں نے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھ کر زبان اُس کے منہ میں ڈال دی اور اس کے منہ کے اندر زبان کو گھمانے لگا ساتھ ہی میں نے لن کو جھٹکے دینے کی رفتار بھی بڑھا دی۔ سعدیہ کو بھی مزہ آنے لگا تھا۔ وہ بھی اب اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اُچھل رہی تھی۔ اُس کے منہ سے نکلنے والی آہہہہ اووو ھمممم ممممممم کی آوازیں پتہ دے رہیں تھیں کے وہ اب پوری طرح سے مزے کی وادی میں اُتر چُکی ہے۔ میں نے بھی جھٹکے دینے کی رفتار تیز کر دی۔ سعدیہ بےخود ہو رہی تھی اُس نے مجھے چُومنا چاٹنا شروع کر دیا۔ اُس کے اس عمل نے مزہ دوگنا کر دیا۔ میں بھی پورے جوش سے جھٹکے دے رہا تھا۔ اچانک مجھے اُس کے جسم میں کُچھ تناؤ لگا میں نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ سانس روکے آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی۔ پھر اُس نے آہستہ آہستہ سانس چھوڑنا شروع کی اور اس کا تنا ہوا بدن بھی ڈھیلا پڑنے لگا۔ وہ چُھوٹ رہی تھی اُس کی پھُدی سے نکلنے والا پانی میرے پیٹ پر پھیل گیا۔ میرا لن اُس کی پھُدی کے پانی سے پورا تر تھا۔ اور میں اب پُوری رفتار سے لن کو اندر باہر جھٹکے دے رہا تھا۔ سعدیہ کے منہ سے نکلنے والی اُممممم ممممم آہہہہہ اووووو کی آوازیں بدستور جاری تھیں۔ اس کی پھُدی سے نکلنے والا پانی رگڑ کھا کھا کر کریم کی صُورت گاڑھا ہو گیا تھا۔ میرے جھٹکے اپنی پوری رفتار سے جاری تھے سعدیہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔ کُچھ دیر بعد مجھے لگا کہ میرا لن بھی لاوا اُگلنے والا ہے۔ میں نے جھٹکے دینا روک دیا۔ کیونکہ میں اس مزے اور سرور کی وادی میں کُچھ دیر اور رہنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی میں اپنی قوت کو جمع کر کے دوبارہ شروع ہو گیا۔ سعدیہ کے منہ سے بدستور آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ میرے لن کے ہر ہر جھٹکے پر اپنی پھُدی سے واپس جھٹکے دے رہی تھی۔ مجھے لگا کے وہ دوبارہ سے چھُوٹنے والی ہے تو میں نے بھی اُس کے ساتھ چُھوٹنے کا فیصلہ کیا۔ میں کسی مشین کی طرح تیزی سے جھٹکے دینے لگا- سعدیہ کے منہ سے عجیب سی آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔ میں مسلسل اُس کے مموں اور ہونٹوں پر بوسے دیئے جا رہا تھا۔ سعدیہ بھی بھرپور جواب دے رہی تھی۔ اس نے لن کے اوپر تیز تیز اُچھلنا شروع کیا تو مجھے علم ہو گیا کہ وہ اب پھر سے چھُوٹنے والی ہے۔ میں نے بھی جھٹکے لگانے کی رفتار تیز کر دی۔ میرے لن کی رگیں اُبھر سی گئیں تھیں۔ لاوا تیار تھا اور بس نکلنے کو ہی تھا۔ اچانک سعدیہ ہلکان ہو کر میرے سینے پر گر سی گئی۔ وہ دوبارہ فارغ ہو چُکی تھی۔ میں بھی لاوا اُگلنے ہی والا تھا اور پھر اچانک مجھے لگا کہ تپتے ہوئے صحرا میں جیسے بادل سے چھا گئے ہوں۔ اک سکون سا تھا۔ ہم دونوں کُچھ دیر اُسی حالت میں ایک دوسرے کو بانہوں میں بھر کر بیٹھے رہے۔ جب سب سکون ہو گیا تو تب ہمیں حالات اور واقِعات کی نزاکت کا احساس ہوا۔ سعدیہ میرے سینے پے سر رکھے رونے لگی میں بھی شرم ، ندامت اور گُناہ کے احساس سے زمین میں گڑھا جا رہا تھا۔ کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں کیا نہ کروں۔ میں سعدیہ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کے کھڑا ہو گیا اور کہا کہ جو گُناہ مجھ سے سرزد ہو گیا ہے اگرچہ میں کسی صورت بھی معافی کا حقدار نہیں پھر بھی تم سے معافی مانگتا ہوں ہو سکے تو اس گناہگار کو معاف کر دینا کیونکہ میں نے اب زندہ نہ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تُم کو گھر پہنچا کر میں کہیں دور جا کے خودکُشی کر لوں گا۔ سعدیہ نے یہ سُنا تو رونا بند کر دیا۔ میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولی، بھائی جو گُناہ آپ نے کیا ہے میں بھی اُس گُناہ میں شریک تھی۔ آپ خودکُشی کر لو گے تو کیا میں زندہ رہ پاؤں گی۔ اور ہم دونوں کی اس طرح موت پر لوگ اُنگلی نہیں اُٹھائیں گے کیا۔ دُنیا ہمارے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا جینا حرام نہیں کر دیں گی کیا؟ تو کیا کروں مجھے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا میں نے پوری بےبسی اور رو دیتے ہوئے کہا۔ کیوں نا ہم اس وقت کو ہی مار دیں جو ہم پربیت چُکا ہے۔ سعدیہ نے رازدارانہ انداز میں مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ میں نے حیرانی سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا مطلب؟ مطلب یہ کے کیوں نہ ہم اس وقت اور اس واقعے کو یہیں دفن کر دیں اور بھول جائیں کے یہ واقعہ کبھی ہمارے ساتھ پیش آیا تھا۔ ہم وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں دوگھنٹے پہلے ہم تھے۔ اگرچہ میں اُس کی بات سے مُتفق ہو گیا تھا لیکن گناہ کے بوجھ سے میرے کندھے جُھکے ہوئے تھے اور نگاہ اوپر اُٹھ ہی نہیں رہی تھی۔ ہم دونوں اُٹھے تو دیکھا کپڑے کیچڑ سے بھرے تھے۔ بارش کا پانی ایک جگہ جمع ہوا تھا جس سے ہم نے کپڑوں سے کیچڑ اُتاری۔ سعدیہ کی شلوار پر خون بھی لگا تھا جسے ہم نے دھونے کی کوشش کی لیکن دھبے بدستور برقرار رہے تو ہم نے ان دھبوں پر اچھی طرح سے کیچڑ مل دی تاکہ خون نظر نہ آئے۔ وہاں سے ہم یہ عہد کر کے چلے کے یہ جو وقت گُذرا ہے ہم اسے بالکل بھول جائیں گے جیسے کُچھ ہوا ہی نہیں۔
  ہم گھر پہنچے تو گھر میں تمام لوگ کافی پریشان تھے۔ جیسے ہی ہم کو دیکھا تو ان کی جان میں جان آئی۔ امی تو ہم دونوں پر فدا ہو رہی تھیں کبھی مجھے اور کبھی سعدیہ کو بانہوں میں بھر بھر کے چُوم رہی تھیں۔ ہم نے نہا دھو کر کپڑے تبدیل کیئے۔ پھر کھانا سب نے مل کر ہی کھایا۔ کھانے کے دوران میں کبھی کبھی آنکھ اُٹھا کر سعدیہ کو دیکھ لیتا۔ مجھے نہیں معلوم کے وہ بھی مجھے دیکھ رہی تھی یا نہیں۔ آج ہمارے ساتھ بیتنے والا ہر پل میری نظروں میں گھوم جاتا۔ مجھے خود پر غُصہ آ جاتا کے کیسے میں نے ان کمزور لمحوں کو خود پر ہاوی ہونے دیا۔ کیسے میں رشتے کا تقدس نہ کر سکا۔ مجھے خود سے شرم آ رہی تھی۔ اگرچہ سعدیہ نے کہا تھا کے ہم اس وقت کو ہی یاد نہیں رکھیں گے اور سمجھیں گے کے یہ ہماری زندگی کا حصہ ہی نہیں۔ لیکن یہ خیال کے کیا ہم واقعی اس تلخ حقیقت کو بھول پائیں گے اور ساتھ ہی یہ ڈر اور خوف کے اگر کسی کو اس بات کا پتہ چل گیا تب کیا ہو گا۔ سعدیہ بھی شائید اپنی طور پر انہیں سوچوں میں گُم تھی۔ کھانے کی میز سے اُٹھے تو بجائے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھنے کے میں اپنی روم میں چلا گیا۔ امی نے سعدیہ سے بھی کہا کے اُس کی حالت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی وہ بھی جا کر اپنے بیڈ روم میں آرام کرے۔ سعدیہ جو امی کو برتن سمیٹنے میں ہیلپ کر رہی تھی ، جی اچھا کہہ کر اپنی بیڈ روم میں چلی گئی۔ صُبح کافی دن چڑھ آیا تھا جب میری آنکھ کھُلی وقت دیکھا تو دن کا ایک بج رہا تھا۔ میں جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا۔ گھر کے تمام کمروں میں جھانک کر دیکھا پر گھر میں کوئی موجود نہ تھا۔ میں ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا۔ ہزار طرح کی سوچیں تھیں جو میرے دماغ کو بوجھل کیئے ہوئے تھیں۔ خوف میرے دماغ میں گھنٹیاں بجا رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے میں پاگل ہو جاؤں گا۔ اگر تھوڑی ہی دیر بعد امی اور سعدیہ واپس نہ آگئیں ہوتیں تو مجھے پورا یقین تھا کے میں چیخنے چلانے لگتا۔ اندر کی وحشت تھی جو مجھے پاگل کیئے دے رہی تھی۔ امی نے آتے ہی مجھے پوچھا کے میری طبیعت اب کیسی ہے۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہوں ۔ تب امی نے بتایا کے رات میں اور سعدیہ سخت بخار میں تھے۔ لیکن صبح چونکہ میں گہری نیند میں تھا اس لیئے وہ سعدیہ کو اکیلے ہی ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھیں۔ انہوں نے ڈاکٹر سے لائی ہوئی دوائی مجھے اور سعدیہ کو پلائی  وہ کہہ رہی تھیں " فکر نہ کرو شام تک تم دونوں بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے، کل بارش میں بھیگتے رہے ہو نا اس لیئے بخار ہو گیا ہے۔ " میں نے بس اوں آں میں ہی جواب دیا جبکہ سعدیہ صوفے کے کونے پر کمبل کیئے آنکھیں بند کر کے لیٹی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔ میں چور نگاہوں سے کبھی کبھی سعدیہ کو دیکھ لیتا اور پھر نظریں جھکا لیتا۔ شام تک واقعی ہم ٹھیک تھے۔ سعدیہ بھی شام کو امی کیساتھ کچن میں ان کی ہیلپ کر رہی تھی اور میں بھی تھوڑی دیر کیلئے گھر سے باہر نکل آیا۔ میں کوشش کر رہا تھا کے اس واقعے کو دماغ کے کونے کھدروں سے کھُرچ کر پھینک دوں لیکن لیکن میری ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔ میں جتنا بھولنا چاہتا تھا وہ اتنا ہی دماغ میں فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتا۔
    میں بظاہر ٹھیک تھا لیکن میرے اندر کا خلفشار مجھے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔  رات جب کھانا کھانے کے بعد ہم سب ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہے تھے تو امی نے شائید نوٹ بھی کیا کہ میں ذہنی طور پر حاضر نہیں ہوں تو انہوں نے پوچھ بھی لیا، " جہانزیب تم ٹھیک تو ہو..ایسے کہا کھوئے ہوئے ہو، کوئی پریشانی ہے کیا؟ " امی نے ایک دم سے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تو میں بوکھلا سا گیا۔ " جی....جی جی وہ کچھ بھی نہیں بس آج کالج نہیں جا سکا نا اس لیئے کالج کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ یہ کہتے ہوئے میری نظر سعدیہ کی طرف اُٹھی تو وہ میرا جواب سُن کر ہنس رہی تھی۔ "تو کوئی بات نہیں صُبح تم کالج چلے ہی جاؤں گے اس میں پریشانی کیا ہے۔" امی دوبارہ سے ٹی وی کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں۔ " جی ہاں... ایسے ہی ہے۔" میں نے بھی ٹی وی پر نظریں گاڑ دیں۔ صُبح اُٹھ کر کالج گیا تو وہاں بھی ہر چیز عجیب سی لگ رہی تھی۔ واپس گھر پہنچا تو سعدیہ گھر میں اکیلی تھی۔ اس سے پوچھنے پر پتا چلا امی پڑوس کے کسی گھر گئ ہیں۔ سعدیہ نے میرے لیئے کھانا نکالا اور میرے پاس ہی بیٹھ گئی۔ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ ابھی پہلا لُقمہ ہی لیا تھا کے مجھے سعدیہ کی آواز سُنائی دی " بھائی یہ احمقوں کا طرزعمل بند کریں اور خود کو سنبھالیں، ورنہ آپ کے رویّے سے سب کو شق ہو گا کے کوئی بات ہوئی تھی۔" " میں کیا کروں سعدیہ، جو کُچھ ہوا وہ میرے دماغ سے جاتا ہی نہیں" میں نے نظریں جھکائے ہی جواب دیا۔ " میں جتنا بھولنے کی کوشش کرتا ہوں، یہ اتنا ہی میرے دماغ میں چپک جاتا ہے۔" میری حالت کسی ہارے ہوئے جواری سے بھی بدتر تھی۔ سعدیہ اُٹھی  اور گوشت کاٹنے والی بڑی چھُری لے آئی, " اگر خود کو سنبھال نہیں سکتے تو یہ چھُری لو اور پھیر دو میرے گلے پر، کیونکہ جو ہوا اس میں میں بھی شریک تھی۔" اس کے تیور دیکھ کر میرے پورے بدن میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ میں اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ اگرچہ وہ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی اور ساتھ میں لڑکی تھی لیکن  اُس کے اعصاب مجھ سے مضبوط تھے وہ اتنے بڑے واقعے کو اتنا جلدی فراموش کر دے گی بلکہ مجھے بھی حوصلہ دے گی کہ میں بھی اسے فراموش کر دوں۔ ایسا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ "سعدیہ اگر کسی کو علم ہو گیا تو؟ " میں اس ذلت کا سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا ہوں۔" ابھی الفاظ میرے منہ میں تھے کے سعدیہ بول پڑی " کسی کو کیسے علم ہو گا، اس بات کو آپ جانتے ہیں یا میں۔ کیا آپ بتائیں گے؟ کیونکہ میں تو کسی کو بتانے والی نہیں۔" سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے بولے جا رہی تھی اور میں سُن رہا تھا۔ اس کی باتیں مجھے حوصلہ دے رہی تھیں۔ سعدیہ نے ایک بار پھر مُجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس واقعے کو بھول جاؤں گا اور اپنے کسی عمل یا بات سے کبھی اسے ظاہر نہیں ہونے دوں گا۔
        کچھ دن کرب و اذیت کے گُذرے لیکن پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آنے لگے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کے میں اس واقعے کو بالکل بھول گیا تھا۔ مگر یہ ضرور تھے کے میں پہلے جیسی نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا۔ ہر چیز پہلے جیسی تھی لیکن کبھی کبھی یہ احساس ہوتا کے کچھ نہ کچھ ضرور بدلہ ہوا ہے۔ لیکن پھر سب کو اپنی اپنی زندگی میں مگن دیکھ کر اسے اپنا وہم خیال کر کے ذہن سے جھٹک دیتا۔ لیکن ایک روز مجھے لگا کے میں جسے وہم سمجھ رہا تھا وہ محض وہم نہ تھا۔ بلکہ حقیقت میں بدلاؤ تھا۔ اور یہ بدلاؤ سعدیہ کے رویے میں تھا۔ میں جب بھی گھر ہوتا وہ میرے قریب ہونے کی کوشش کرتی۔ میرے ساتھ اس کے انداز بڑے دلربانہ ہوتے۔ وہ  میرے سامنے ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اور چھاتی پھیلا پھیلا کر انگڑائیاں لیا کرتی۔ میں اگر کچن میں اس کے ہوتے ہوئے کچھ لینے چلا جاتا تو وہ بہانے بہانے سے مجھ سے ٹکراتی۔ میں صوفے پر ہوتا تو وہ میرے ساتھ جُڑ کے بیٹھنے کی کوشش کرتی۔ اگر اسے دوسرے صوفے پر بیٹھنا پڑتا تو وہ ایسے انداز سے بیٹھتی کے میری نظر اس کی گانڈ پر ضرور پڑے۔ بہت دفعہ میرے قریب سے گُذرتے ہوئے بڑے غیر محسوس انداز سے اس کے ہاتھ نے یا گانڈ نے میرے لن کو چھوا تھا۔ صوفے پر اگر اسے میرے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل جاتا تو وہ ہمیشہ اپنا ہاتھ میری ران پر رکھ دیتی اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگتی۔ اُسے چونکہ سکول یا کالج جانا نہیں ہوتا تھا اسی لیئے رات سونے والے پاجامے میں ہی سارا دن گھر میں گھومتی رہتی جس سے اس کی گانڈ کی گولائیوں کے اُبھار واضح نظر آتے۔ میں ان سب چیزوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا۔ اور اگر دماغ میں کوئی بات آتی بھی تو یہ سوچ کر کے چونکہ ہم ایک واقعے سے گُذر چُکے ہیں اس لیئے یہ میرا ذہنی خلفشار ہے ورنہ ایسی کوئی بات نہیں۔ پھر میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس واقعے سے پہلے اور بعد میں ہونے والی چیزوں کا موازنہ کرتا۔ اور پھر خود کو سمجھانے کی کوشش کرتا کے سعدیہ کے ساتھ ایک صوفے پر بیٹھنا یا پھر گھر میں آگے پیچھے ٹکرانا پہلے بھی ہوا کرتا تھا لیکن پہلے کبھی خیالات ایسے نہیں ہوتے تھے۔ اور پھر خود کو کہتا کے میرا وہم ہے۔ لیکن اُس دن میں کالج سے آیا تو امی گھر میں نہیں تھیں اور سعدیہ اپنے کمرے میں تھی۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی۔ اس لیئے میں اسے کھانا لگانے کا کہنے کے لیئے اسے آوازیں دیتا ہوا اس کے کمرے میں چلا گیا تو دیکھا وہ بغیر قمیض پہنے ہوئے صرف برا میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ شائید وہ کچھ کر رہی تھی۔ مجھے ایک جھٹکا لگا اور میں کچھ لمحوں کیلئے وہیں ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر الٹے قدموں اس کے کمرے سے باہر آ گیا۔ باہر آکر میں نے پھر اسے آواز دی سعدیہ میں تمہیں آوازیں دے رہا تھا تو تم مجھے ٹھہرنے کا کہہ سکتی تھی کے تم ایسی حالت میں ہو تو میں بے دھڑک اندر نہیں آتا۔ میں اوٹ سے ہی بول رہا تھا۔ وہ اسی طرح اُٹھ کر دروازے میں آگئی ، " بھائی یہ قمیض ہی ہے جسے سی رہی تھی، تھوڑی پھٹ گئی تھی، اور آپ سے کیا پردہ " میں نے اسے یوں دروازے میں برہنہ جسم آتے دیکھ تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ وہ میرے سامنے آتے ہوئے بولی '' آپ منہ تو ایسے پھیر رہے ہیں جیسے آپ کے دیکھے بھالے نہیں"  " وہی ہیں جنہیں آپ نے پہلے دیکھا بھی ہے اور ٹیسٹ بھی کیا ہوا ہے۔" وہ برا کے اوپر سے ہے اپنے مموں کو دبا کر بولی۔   اس کی اس بات نے مجھے بُت کی طرح ساکت کر دیا تھا کیونکہ اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر اس خیال نے جگا دیا کے اگر اس وقت اچانک کوئی گھر میں آ گیا تو وہ ہمیں ایسی حالت میں دیکھ لے گا۔ میں نے  سعدیہ کو بازو سے پکڑ کر کمرے میں دھکیل دیا اور کہا جلدی قمیض پہنو اور مجھے کھانے کیلئے کچھ دو بہت بھوک لگی ہے۔ اس واقعے کے بعد سے یہ آج پہلا موقع تھا جب سعدیہ نے میرے سامنے یوں بیباکی  کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس دن وہ میرے جذبات پھر سے بھڑکا دیتی لیکن امی آگئیں تو وہ بھی قمیض پہن کر میرے لیئے کھانا تیار کر کے لے آئی۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مُسکرا رہی تھی۔ لیکن میں کسی اور سوچ میں غرق تھا۔ میں سوچ رہا تھا کے آگے کیا ہونے والا ہے۔ لیکن میری سوچنا لا حاصل رہا۔ سعدیہ برتن اٹھانے آئی تو سرگوشی سے کہہ گئی بھائی سوچ کر اپنی جان ہلکان نہ کریں بس زندگی کے دھارے پر بہتے رہیں۔ میں اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔
     اس دن کے بعد میری انتہائی کوشش ہوتی کے میں سعدیہ سے دور رہوں۔ کیونکہ سعدیہ کے اندر مجھے شیطان نظر آ رہا تھا۔ ابھی دو دن ہی گذرے تھے کے سعدیہ نے مجھے کالج جانے کیلئے نکلتے وقت ایک چٹ ہاتھ میں تھما دی۔ میں نے گیٹ سے نکلتے وقت اسے کھول کے دیکھا تو اس پر صرف اتنا لکھا تھا، " ایک بار یا بار بار" میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا کے یہ کیا پیغام ہے اور سعدیہ کس چیز کے بارے میں اشارہ کر رہی ہے۔ کالج سے واپس آیا تو میں جیسے ہی اپنی روم میں داخل ہوا تو بیڈ کے کونے پر ایک کاغذ پڑا ملا اُٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا۔ "کوئی فرق نہیں پڑتا" پہلے تو سمجھ نہ آئی لیکن صبح کی تحریر اور اسے ملا کر پڑھا تو سب سمجھ آ گئی یعنی سعدیہ مجھے پھر سے دعوتِ گُناہ دی رہی تھی۔ "ایک بار یا بار بار، کوئی فرق نہیں پڑتا" میں فوراً سعدیہ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کیا کرتا امی گھر میں موجود تھیں۔ شام کو تو چانس ہی نہیں تھا کیونکہ شام کو تو سبھی گھر ہوتے ہیں۔ مجھے پتا تھا کے جو بات مجھے سعدیہ سے کرنی ہے اس کیلئے خاصہ وقت چاہیئے اور یقیناً یہ بات ہم کسی بھی دوسرے کے سامنے نہیں کر سکتے تھے۔ میں نے بھی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا "مجھے تُم سے فوری بات کرنی ہے" اور پانی پینے کے بہانے کچن میں جا کر سعدیہ کے ہاتھ میں تھما کر واپس ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔ میں انتظار کر رہا تھا کے سعدیہ کی طرف سے کوئی جواب آئے گا۔ لیکن کوئی جواب نہ ملا صبح کالج جانے کیلئے نکلا تو سعدیہ نے نکلنے سے پہلے ایک کاغذ تھما دیا، جس پر لکھا تھا۔ " کالج سے جلدی واپس آ جانا، مجھے اور امی کو آج شاپنگ کرنے بازار جانا ہے لیکن میں نہیں جاؤں گی اور کوئی بہانہ کر کے گھر ہی رہ جاؤں گی۔ امی گیارہ بجے سے لے کر ساڑھے تین بجے تک گھر نہیں ہوں گی۔" میں نے تحریر پڑھنے کے بعد کاغذ کے پُرزے پُرزے کر کے پھینک دیئے۔ اور گھڑی پر وقت دیکھا تو ساڑھے نو بج چُکے تھے میرے لیئے محال تھا کے میں دس بجے کالج پہنچوں اور گیارہ بجے واپس گھر آجاؤں۔ اس لیئے میں نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ڈیڑھ گھنٹہ یونہی آگے پیچھے گذارنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی گیارہ بجنے میں کچھ وقت باقی تھا جب میں گھر کے قریب ہی آ گیا۔ اور ایک سائیڈ کی گلی میں نُکڑ پر کھڑا ہو گیا۔ یہاں سے میں اپنے گھر کے گیٹ کو باآسانی دیکھ سکتا تھا۔ میں چاہتا تھا کے امی کے گھر سے نکل جانے کا یقین کر لوں تو میں گھر جاؤں ۔ گیارہ بجے سے دس منٹ اوپر ہوں گے جب میں نے امی کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ میں سائیڈ میں چھپ گیا اور یہ یقین کر لینے کے بعد کے امی چلی گئی ہیں۔ تب وہاں سے نکلا اور گیٹ کھول کر گھر میں داخل ہو گیا۔ میں نے سعدیہ کو آواز دے کر پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے اپنے کمرے سے آواز دی ، میں اپنی روم میں ہی ہوں آپ بھی ادھر ہی آجاؤ۔ میں اس کی روم کے اندر داخل ہوا تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سٹول پر بیٹھی تھی، اس کے بال کھُلے تھے جبکہ کپڑوں کے نام پر صرف ایک پینٹی تھی جو اس کی شرم گاہ کو چھپائے ہوئے تھی۔ باقی سارا جسم برہنہ تھا۔ سعدیہ تم جو چاہ رہی ہو ٹھیک نہیں ہے، میں نے آگے بڑھ کر اس کے بیڈ سے چادر کھینچی اور اس کا جسم ڈھانپتے ہوئے کہا۔ اگرچہ اسے ننگا دیکھ کر میرے تن بدن میں بھی آگ لگ گئی تھی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو جو غلطی ہوئی سو ہوئی اب ضروری نہیں کے ہم وہی غلطی دوبارہ کریں۔ میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سعدیہ بول پڑی، کیا غلط اور کیا صحیح یہ سوچنے کی حد ہم نے بہت پہلے عبور کر لی، اب فرق نہیں پڑتا کے ہم ان حدوں کو کتنی بار پھلانگتے ہیں۔ لیکن سعدیہ..... میں نے بات کرنا چاہی تو سعدیہ نے پھر درمیان میں ہی میری بات کاٹ دی، لیکن کیا؟ آپ ہی بتاؤ اس دن میری چُدائی کرتے ہوئے آپ کو مزہ آیا تھا کے نہیں؟ یہ کیسا سوال ہے؟ میں نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا تو سعدیہ اُٹھ کر میری طرف بڑھتے ہوئے بولی ، بات گول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بتائیں مزہ آیا تھا کے نہیں؟ مجھے تو بہت آیا تھا، یہ کہتے ہوئے ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔ مجھے بھی آیا تھا پر سعدیہ وہ حالات کچھ اور تھے، جن کی وجہ سے ہم سے یہ شیطانی فعل سرزد ہوا۔ میں بات کر رہا تھا اور وہ میرے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ اس کے انار جیسے ممے تنے ہوئے تھے اور بالکل میری آنکھوں کے متوازی تھے۔ حالات جو بھی تھے، لیکن ہم ایسا کر چکے، سعدیہ میرے اتنا قریب آ گئی کے مجھے اُس کے جسم کی گرمی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس حرارت سے سعدیہ کا بدن چمک رہا تھا۔ سعدیہ ہم بھائی بہن ہیں ۔ مجھ پر میرا کنٹرول ختم ہو رہا تھا۔ بھائی بہن تو ہم اُس دن بھی تھے۔ سعدیہ ترقی بہ ترقی جواب دے رہی تھی۔  تم کو پتا ہے سعدیہ کے اس دن تم سردی سے مر رہی تھی اور جو کچھ ہوا اس میں نظریہ لذت حاصل کرنے کا نہ تھا۔ بلکہ برادرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر میں تمہارے جسم کو حرارت دینے کی کوشش کر رہا تھا کے شیطان کے بہکاوے میں آ کر بہک گیا ۔ میں نے گویا اپنی صفائی پیش کی لیکن سعدیہ کا مُوڈ کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے پیٹ پر رکھ دیا اور کہا ' بھائی  اگر میں کہوں کے میں آج بھی مر رہی ہوں تو کیا آج میری زندگی نہیں بچاؤ گے؟ آج کیا اُس دن کے بعد سے تو میں روز مرتی ہوں ہر روز خواب میں تمہیں ہی دیکھتی ہوں دن کو جب بھی سامنے آتے ہو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس نے باتیں کرتے کرتے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھتے ہوئے کہا تمہارے اس لن نے جو لذت مجھے اس دن دی میں اس لذت کے سحر سے آج تک نہیں نکلی۔ مجھے تُمہارا لن ہر وقت اپنی پھُدی میں محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یہ چاہئے سعدیہ نے جو بات کرتے ہوئے میرے لن کو پکڑا تو وہ آگ کی طرح تپنے لگا۔ اکڑ کے سخت تو وہ کب کا ہو چکا تھا لیکن سعدیہ کے ہاتھ لگتے ہی مچلنے لگا تھا۔ بھائی یہ صرف میرے دل کی خواہش نہیں، سعدیہ کی آواز پھر میری سماعتوں میں گونج اٹھی۔ مجھے علم ہے کے آپ بھی یہی چاہتے ہو، میں جانتی ہوں کے جب بھی آپ کے قریب سے گذروں تو سامنے سے آپ کی نظر میرے مموں پر جبکہ پیچھے سے آپ میری گانڈ کو دیکھتے رہتے ہو۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کے میں جب کام کر رہی ہوتی ہوں تو آپ میرے جھکنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہو تاکہ میں جھکوں تو آپ میرے مموں کو جھانک سکیں۔ نہیں یہ بہتان ہے، میں نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی تو سعدیہ پھر بول پڑی اگر اُس دن آپ مجھے تھپڑ لگا دیتے جس دن میں کمرے میں ننگی بیٹھی اپنی قمیض سی رہی تھی تو میں سمجھ جاتی کے آپ کے بارے میں جو میری رائے قائم ہو رہی ہے وہ صحیح نہیں۔ لیکن اُس دن جس طرح میرے ننگے بدن کے گرد آپ کی آنکھیں گھوم رہی تھیں  وہ مجھے یقین دلانے کیلئے کافی تھیں کے آپ کے دل میں میرے بدن سے کھیلنے کی خواہش ابھی ہے۔ بھائی اگر آج آپ کالج چلے جاتے اور میرے یوں بلانے پر کے جس وقت میں گھر میں اکیلی ہوں نہ آتے تو تب بھی میں یقین کر لیتی۔ میں مانتی ہوں کے میرے دل میں آپ کے لیئے خواہش ہے۔ اب آپ بھی نقاب اتاریں اور مجھے چودنے کی جو خواہش ہے اسے پورا کر لیں۔ دیکھیں میں تو بالکل تیار ہوں۔ بس ایک یہ پینٹی ہے جسے آپ نے اُتارنا ہے۔
میری حالت لاش کی سی تھی۔ سچ میں میری رگوں میں خون جم سا گیا۔ میں سانس لینا بھول گیا۔ میں بس سعدیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔ کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہوں کیا کروں۔ ایک بُت کی مانند کھڑا تھا۔ جو غلطی اور گُناہ مجھ سے سرزد ہو گیا تھا میں اسے پھر سے دُھرانا نہیں چاہتا تھا۔ سعدیہ کا نرم و نازک بدن میرے سامنے بالکل برہنہ تھا اور اسے کوئی اعتراض بھی نہ تھا بلکہ وہ خود مجھے اس گُناہ کی طرف ترغیب دے رہی تھی ۔ اُس کے خیال میں جن حدود کو ہم کراس کر چُکے ان کو دوبارہ پار کر لیں گے تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اس کے کہے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ "ایک بار یا بار بار ، کوئی فرق نہیں پڑتا"۔ میں تذبذب کی کیفیت میں تھا جبکہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی مسلسل میرے لن کو ٹٹول رہی تھی۔ سعدیہ نے کہا تھا کے میری آنکھیں اس کے نسوانی حُسن کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ میں اُس کی گانڈ اور مموں کو گھورتا ہوں ۔ میں نے خود سے ہی سوال کیا کے کیا واقعی ایسا ہے جیسے سعدیہ نے کہا ہے۔ میں سوچ میں غرق تھا۔ میں نے  میرے اور سعدیہ کے درمیان ہونے والے واقعے کے بعد کے تمام واقعات کا جائزہ لیا تو مجھے لگا کے سعدیہ کا کہنا کسی حد تک سچ ہی تھا۔ واقعی میری نظر سعدیہ کے سراپے پر گڑھی رہتی تھی۔ لیکن یہ ارادتاً نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ ایسا مجھ سے غیر ارادی طور پر ہو جاتا تھا۔ یہ حقیقت تھی کے اس دن کے بعد خواب میں میں نے بارہا سعدیہ کے ساتھ مختلف پوزیشن میں سیکس کیا تھا۔ اب سعدیہ نے کہا تو میں بھی سوچنے پر مجبور ہوا کے ایسا غیر ارادی طور پر ہونا کیا واقعی میرے اندر کی خواہش تھی۔ کیا میں واقعی نقاب کے پیچھے چھُپنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کیا سعدیہ جو کہہ رہی ہے ویسا کرنے سے واقعی فرق نہیں پڑے گا۔ میں سوچوں کے سمندر میں غرق تھا۔ میں جتنا سوچ رہا تھا سعدیہ کا پلڑا باری ہو رہا تھا۔ سعدیہ کی آواز میرے کانوں میں ایک بار پھر گُونجی، " یہ آپ کے اندر کی خواہش ہی ہے کے میں کب سے آپ کے لن کو سہلا رہی ہوں اور آپ نے ایک بار بھی میرے ہاتھ کو اپنے لن سے نہیں ہٹایا" اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مُسکراہٹ مجھے واضع نظر آئی اور مجھے لگا جیسے میں رنگے ہاتھوں چوری کرتے پکڑا گیا ہوں، میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے فوراً اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ پھر بولی " خود پر جبر نہ کریں، دیکھیں ہمارے لیئے یہی بہتر ہے کے ہم میں جو تعلق استوار ہو چُکا ہے اسی کو بنائے رکھیں، نہ کہ ہم باہر جا کر نئے تعلق بنائیں، یہ ہی سب سے محفوظ اور بھروسہ مند ہے، ضرورت مند ہم دونوں ہیں، اور دونوں کیلئے ایسا کرنا نیا بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہم  دونوں اس حد کو پھلانگ چکے۔"  وہ بولے جا رہی تھی، میں جو اسے سمجھانے آیا تھا خود پگل رہا تھا۔ میرے منہ میں جیسے الفاظ ہی نہ تھے۔ اُس نے میرے لن کو ایک بار پھر ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا، مجھے تو یہ چاہئیے آپ نہیں دو گے تو میں باہر کسی سے بھی اس کیلئے دوستی لگا لونگی، لیکن آپ کو بتا دیتی ہوں کے مجھ سے اگر کبھی بھی سوال ہوا کے میں نے عزت و ناموس کا خیال کیوں نہیں کیا تو میں آپ کا نام لینے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاؤں گی کے آپ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے میری عزت کو تار تار کیا تھا۔ اس کی یہ بات مجھ پر ایٹم بم کی طرح گری میں ایکدم سے چاروں شانے چِت ہو گیا۔ نہیں سعدیہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔ تم جو کہتی ہو میں کرنے کو تیار ہوں۔ پھنسے پھنسے الفاظ میرے منہ سے ادا ہو ہی گئے۔ میرے اندر کی خواہش الفاظ بن کر میرے ہونٹوں سے اُبل پڑی۔ لیکن میں سعدیہ کو جتلانے کی کوشش میں تھا کے جیسے میں اُس کے ساتھ ڈر کر ایسا کرنے پر آمادہ ہوا ہوں۔  حادثاتی طور پر اور نامناسب حالات اور جگہ پر جو فعل ہم سے سرزد ہوا تھا ہم وہی فعل اب مرضی سے کرنے پر آمادہ تھے۔ میں نے سعدیہ کو کہا کے وہ اپنے کپڑے پہن لے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا صرف تمہاری پینٹی اُتارنے میں مزہ نہیں آئے گا۔ میں چاہتا ہوں کے ہم جو کرنے جا رہے ہیں اسے اب پوری طرح سے انجوائے کریں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا تو اس نے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا۔  سعدیہ نے الماری سے کپڑے نکالے اور میری پسند سے ایک سوٹ پہنا، اس کے سلکی بال کھلے ہوئے تھے جو کے شانوں سے گر رہے تھے۔ اس کے گال پہلے سے ہی تپ کر سُرخ ہو چکے تھے۔ آنکھوں میں خمار بھرا ہوا تھا۔ اس کے رسیلے ہونٹ لرز رہے تھے اس پر اُس نے ایک تیز پرفیوم لگا لی تھی جس کی خوشبو نے ماحول کو مزید گرما دیا تھا۔ کپڑے پہن کر اُس نے میری طرف عجب دلفریب انداز میں دیکھا تو میں جیسے اس کی جانب لپک پڑا۔ میرا بایاں ہاتھ اُس کے پیٹ سے رینگتا ہوا اس کی کمر کی جانب جا رہا تھا جبکہ میرا دایاں ہاتھ کنگھے کی طرح اُس کے کان کے قریب سے بالوں کو چیرتا ہوا اس کے سر کے پیچھے پہنچا تو میں نے اس کے بالوں کو مُٹھی میں لیتے ہوئے تھوڑا سا نیچے کھینچا تو اس کا منہ اوپر کو ہو گیا۔ جیسے ہی منہ اوپر اُٹھا میں نے اپنے تپتے ہونٹ اس کے گرم ہونٹوں پر رکھ دیئے۔بائیں بازو سے میں نے اس کی پتلی کمر کو گھیرے میں لے کر اپنے جسم کو اس کے جسم سے چپکا لیا۔ اس کے بدن سے جیسے آگ نکل رہی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں سے رس چُوس رہے تھے۔ سعدیہ نے بھی مجھے اپنے دونوں بازؤوں میں بھر لیا تھا۔اس کے ہاتھ میری کمر پر گردش کر رہے تھے۔ میں اب سعدیہ کے ہونٹوں کے ساتھ ساتھ اس کے گال بھی چومنے چاٹنے لگا۔اور ساتھ ہی میں دونوں ہاتھ اس کی کمر پر لے جا کر اوپر اس کے کندھوں سے لے کر اس کے کولہوں تک پھیرنے لگا۔ میرے ہاتھ جیسے ہی اس کے کولہوں پر آتے وہ سمٹ جاتی۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے دونوں ہاتھ سعدیہ کی قمیض کے اندر کر لیئے۔اب اس کی ننگی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ساتھ ہی ساتھ اس کے گالوں اور ہونٹوں پر کسنگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ میرے ہاتھ نیچے جاتے تو میں انہیں سعدیہ کی شلوار کے اندر لے جاتا اور گانڈ کے گول گول ابھاروں کو دونوں ہاتھوں سے دبا دیتا۔ سعدیہ ایسا کرنے پر اور جوش میں آ جاتی۔اس کے ہاتھ بھی میرے جسم پر جم سے جاتے۔ سعدیہ بے خود ہو رہی تھی میں نے اس کی قمیض کو اوپر اٹھایا تو سعدیہ نے بازو اُٹھا دیئے جیسے وہ قمیض کے قید سے آزاد ہونا چاہتی ہو۔ میں نے بھی دیر نہیں لگائی اور اس کی قمیض اُتار دی۔ ساتھ ہی میں نے اس کی برا کی ہُک بھی کھول دی۔ اب سعدیہ کا بالائی جسم ننگا تھا۔ ہمارے جسموں سے پہلے سے ہی انگارے برس رہے تھے اس لیئے شائید ہم نے جلدی سے کپڑے اُتار پھینکے۔میں نے اپنی شلوار اتاری تو میرا لن سعدیہ کی ٹانگوں کے بیچ چلا گیا۔ جسے سعدیہ نے اپنی ٹانگوں میں پھنسا کر جکڑ لیا۔اس کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ عجیب سی آوازیں تھیں جو منہ سے نکل رہی تھیں۔ میں نے ہلکا دھکا دے کر اسے بیڈ پر گرایا اور خود جمپ کر کے اُس کے اوپر آگیا۔ میرے ہاتھ اب اس کے مموں پر تھے سخت اکڑے ہوئے تھے۔ سعدیہ کے نپلز بہت چھوٹے تھے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اس کے مموں اور نپلز کو مسلنے کی حد تک دبا رہا تھا۔ سعدیہ کی سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں سعدیہ کے ہونٹ گال اور گردن کو چومتے اس کے مموں پر آیا۔جیسے ہی میں نے سعدیہ کے ممے منہ میں لے کر چوسنے شروع کیئے سعدیہ لذت سے بے حال ہو گئی اس کی سسکیاں بلند اور تیز ہو گئیں۔ میں اسے چومتے ہوئے نیچے جانے لگا اس کی ناف پیٹ پر بوسے دینے کے بعد میں نے اس کی رانوں پر کس کیا۔سعدیہ نے پھُدی صاف کی ہوئی تھی۔ چھوٹی سی اور بہت ملائم لگتا نہیں تھا کے سعدیہ پہلے چُدائی کرا چکی ہے۔  اس کی پھُدی گیلی ہو چکی تھی میں نے اسے کپڑے سے خشک کیا اور اپنے ہونٹ پھُدی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔ میرا ایسا کرنا تھا کہ سعدیہ کی ایک تیز سسکی نکل گئی۔ میں نے زبان کے نوک سعدیہ کی پھُدی کے ہونٹوں کے درمیان رکھ کر اسے چاٹنا شروع کیا تو سعدیہ کا سارا جسم جھٹکے لینے لگا۔ اس کی سسکیاں تیز تر ہو گئیں۔ وہ نیچے سے گانڈ ہلا ہلا کر پھُدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی، لیکن الفاظ بے ربط تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ کیا کہہ رہی ہے۔ تھوڑی دیر سعدیہ کی پھُدی چاٹنے کے بعد میں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا اور خود فرش پر کھڑا ہو کے لن سعدیہ کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔ سعدیہ نے میری طرف دیکھا تو میں نے نشے سے سرشار آواز میں کہا، میں نے تمہاری پھُدی چاٹی ہے تو تمہیں میرا لن منہ میں لینے سے ہچکچاہٹ کیوں؟ ایسا کرنا ضروری ہے کیا؟ سعدیہ میرے چہرے پر نظریں جمائے بولی۔ تو میں نے لن اس کے ہونٹوں پر دباتے ہوئے کہا چُوس کر دیکھو مزہ آئے گا۔ اس کے ہونٹوں پر لن کا دباؤ پڑا تو اس نے منہ کھول دیا۔ میرا لن اس کے منہ میں گھستا چلا گیا۔ سعدیہ کو میرا ایسا کرنا شائید عجیب لگا تھا اسی لیئے وہ پہلے جھجھک رہی تھی لیکن بعد میں مزے لے لے کر چوسنے لگی۔ مجھے لگا کے میں نے اگر سعدیہ کو روکا نہیں تو میرا لن لاوا اُگل دے گا۔  میں نے لن سعدیہ کے منہ سے نکالا تو وہ ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ میں نے سعدیہ کو اوندھے منہ بیڈ پر گرایا اور دونوں کولہوں سے کھینچ کر اس کی گانڈ کو اتنا اونچا کیا کے اس کی پھُدی میری آنکھوں کے سامنے تھی  جبکہ اس کے دونوں کندھے اور چہرہ بیڈ پر ٹِکے تھے۔ میں نے دونوں ہاتھ گانڈ کے اوپر رکھے، اور پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا۔ میرے ہاتھ سعدیہ کے چوتڑوں پر تھے جبکہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے اس کی پھُدی کے دونوں ہونٹوں کا مساج کر رہے تھے۔ اس کی سسکیاں بلند ہو رہی تھیں۔ انگوٹھوں کی دونوں پوروں سے میں نے سعدیہ کے پھُدی کے ہونٹوں کو ذرا کھولا اور سر کو جھکا کر ایک دفعہ پھر زبان کو پھُدی کے درمیان ٹکا دیا۔ سعدیہ تڑپ اٹھی وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو مسل رہی تھی۔ اس کا یوں تڑپنا اور سسکارنا میرے رگ رگ میں بجلیاں دوڑا رہا تھا اور میرا جوش اپنی انتہا کو تھا۔  میں زبان کی نوک سعدیہ کی پھُدی کے اندر بڑی تیزی سے گھما رہا تھا اور وہ نیچے تڑپ رہی تھی، اس کا جسم آگ برسا رہا تھا۔کچھ ہی دیر میں اس کی پھُدی سے دوبارہ پانی چھوٹ گیا۔ جو اس کی رانوں سے ہوتا ہوا اس کے گھٹنوں تک پہنچ گیا۔ اب کی بار میں نے اسے صاف نہیں کیا بلکہ اپنا لن پھُدی کے اوپر رگڑ کر اسے خوب تر کیا۔ پھر لن کا سر پھُدی کے بیچ رکھ کر تھوڑا دبایا تو وہ تھوڑا سا اندر چلا گیا۔ سعدیہ کی سسکی بلند ہوئی، میں نے تھوڑا اور دباؤ ڈالا تو لن آہستہ آہستہ اندر جانے لگا۔ میں جانتا تھا کے سعدیہ کی یہ دوسری بار ہی ہے اسی لیئے میں لن کو آہستہ آہستہ اندر ڈال رہا تھا۔ لن پورا اندر چلا گیا تو میں نے اسے ویسے ہی آہستگی سے باہر کی طرف کھینچا۔  میں کچھ دیر اسی طرح آہستگی سے یہ عمل دُہراتا رہا۔ سعدیہ نیچے سسک اور تڑپ رہی تھی۔ لیکن مجھ پر اس کے سسکنے یا تڑپنے کا کوئی اثر نہیں ہونے والا تھا۔ میں نے اب اپنی رفتار کو بڑھانا شروع کیا۔ بالکل ایسے ہے جیسے طیارہ اڑان بھرنے سے پہلے رن وے پر آہستگی سے سٹارٹ لیتا ہے اور پھر سپیڈ پکڑ کر رن وے پر دوڑنے لگتا ہے اور دوڑتے ہوئے فضاؤں میں غائب ہو جاتا ہے۔ میں بھی جہاز کی طرح اب فُل سپیڈ پر تھا ۔میں تیزی سسی دھکے پر دھکا دی رہا تھا سعدیہ چیختے ہوئے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر میرے ہر جھٹکے کو رسپانس کر رہی تھی۔ پسینے کی بوندیں  ہم دونوں کو نہلا رہی تھیں۔ سعدیہ کی چیخیں بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ اور میرے منہ سے بھی عجیب آوازیں نکل رہی تھیں۔ ہم دونوں کے جسموں پر جیسے لرزہ طاری تھا۔  اور پھر سعدیہ کا جسم  کانپتے ہوئے ڈھیلا پڑنے لگا۔ اس کی پھُدی سے پانی اُبل پڑا تھا۔ میرے لن کے ذریعے یہ پانی میری رانوں تک آگیا اور سعدیہ کی رانیں بھی اس سے تر ہو گئیں میرا لن اس کے پانی سے پورا لتھڑ گیا تھا، پھُدی پوری طرح سے چکنی ہو گئی تھی اور لن آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا۔ میں نے جھٹکے دینے کی رفتار میں کوئی کمی نہ کی ۔ میں سعدیہ کی پھُدی کو اسی رفتار سے چودتا رہا۔ میرے لن کی رگیں ابھر آئیں اور لگا جیسے پھٹ جائیں گی۔ یہی وہ لمحات تھے جب میں بھی لاوا اُگلنے والا تھا۔ میں نے لن کو سعدیہ کی پھُدی میں سے نکال لیا اور سعدیہ کو اوندھے منہ بیڈ پر لٹا کر لن اس کی چوتڑوں کے قریب رانوں کے درمیان رکھ کر تیزی سے ادھر ہی دھکے دینے لگا۔ چند ہی لمحوں بعد میرے لن کا جوش پانی نکلنے پر ٹھنڈا پڑنے لگا۔ میں کچھ دیر کیلئے سعدیہ کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ ہم دونوں کی اکھڑی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں تو میں نے اس کے پہلو میں لیٹتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی طرف کیا۔ تو اس کے بکھرے بال اس کے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے ۔اس کی آنکھیں نشے اور خُمار سے بھری  پڑی تھیں جبکہ ہونٹوں پر پُرسکون مُسکراہٹ مجھے اس کے ہونٹ چومنے پر مجبور کر رہی تھی۔