Sunday 11 October 2015

ڈکیت قسط 4

ڈکیت (قسط 4)
وہ جا چُکا تھا اور میں یونہی بُت بنی بیٹھی تھی۔ اچانک جیسے میں خواب سے بیدار ہوئی۔ سب سے پہلے میں نے اپنے کپڑے تبدیل کیئے بیڈ شیٹ بھی تبدیل کی فرش پر گری گندگی کو صاف کیا اور بھاگ کر نیچے گئی جہاں میری ساس سُسر اور دیور ابھی تک بندھے تھے۔ میں نے اُن سب کو کھولا بعد میں میرے سُسر نے پولیس سٹیشن فون کیا اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد ایک پولیس وین آئی جنہوں نے موقع چیک کیا۔ ہم پولیس کے آنے سے پہلے تمام کمرے دیکھ چُکے تھے۔ ہر چیز بکھری ہوئی تھی لگتا تھا انہوں نے گھر کے ہر کونے کی تلاشی لی تھی۔ پولیس نے ہم سب کے الگ الگ بیان قلمبند کیئے۔ میں نے بھی اپنا بیان دیا لیکن میں نے سیکس والا حصہ چھُپا لیا۔ میرے بیٹے کے رونے تک جو ہوا وہ میں نے ویسے کا ویسا ہے بتایا اور میں نے اپنے بیان میں کہا کہ جب میں بیٹے کو دودھ پلا چُکی تو اس ڈاکو نے مجھے یہیں بیڈ پر میرے دوپٹّے سے باندھ دیا تھا اور خود اپنے ساتھیوں سے مل گیا تھا۔ اور میں نے یہ بھی اپنے بیان میں لکھوایا کے مجھے جب گھر میں خاموشی لگی تو تب میں نے بڑی مُشکل سے خود کو کھولا تھا اور بعد میں میں نے باقی گھر والوں کو کھولا تھا۔ پولیس اپنی ضروری کاروائی کے بعد ہمیں تسلی دلاسہ دے کر چلی گئی اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی کے وہ جلد ان ڈاکؤوں کو پکڑ لیں گے ۔ میں نے اپنے شوہر کو فون کرکے واقعے کی اطلاع کر دی تھی۔ اگلے دن بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہوئے اس واقعے کا غم بانٹنے آئے۔ ہر کوئی تسلی دلاسے دے رہا تھا۔ میری ساس اس غم سے مری جا رہی تھی کے عمر بھر کی پونجی لُٹ گئی اور مجھے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ میں اس ڈاکو سے دوبارہ کبھی نہیں مل پاؤں گی۔ پولیس اپنی تفتیش میں مجھے بھی مُلزم کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی۔ انہیں اس بات پر شق تھا کے مجھے الگ کمرے میں کیوں لے جایا گیا اور میں آزاد کیسے ہوئی انہیں اس بات پر بھی شق تھا کے مجھے باندھا بھی گیا تھا کے نہیں۔ لیکن میرے شوہر اور میری ساس اور سُسر کے بیانات میرے حق میں تھے۔ اور سچ بھی یہی تھا۔ میں ہر گز اس ڈکیتی کی واردات میں گھر بھیدی کا کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔ پولیس اپنے طریقے سے تفتیش کر رہی تھی اور مجھے اُن کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔رفتہ رفتہ ہمارے گھر میں ہوئی واردات پر شہر میں ہونے والی اور بیسیوں وارداتوں کی دھول نے گرد ڈال دی۔ سب گھر والے بھی اس واقعے کو بُرے خواب کی طرح بھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں بھی اسے بھول جانا چاہتی تھی لیکن وہ ڈکیت ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہتا۔ اس کے ساتھ گُذرے چند پل میرے دماغ سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔ سب کا خیال تھا کے اس واقعے نے مجھ پر بُرا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر کھوئی رہتی ہوں ۔لیکن میں جانتی تھی کے میں اس لذت اور سرور کے نہ ملنے کی وجہ سے کھوئی رہتی ہوں۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ اب بھی سیکس کرتی تھی۔ پہلے ہی کی طرح اُن کا پورا ساتھ دیتی تھی اور اُن کو ہر ممکن طریقے سے خوش کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن میری خود کی خوشی کہیں کھو گئی تھی۔ میرے شوہر میرے بدن سے جتنی بھی چھیڑ چھاڑ کرتے وہ مجھے عجیب بچگانہ سی حرکات لگتیں۔ جب تک اس ڈاکو نے میرے جسم کو مسلا نہیں تھا تب تک میرے شوہر میرے ساتھ جو کچھ کرتے تھے وہی میرے لیئے سیکس کی انتہا تھی لیکن اس ڈاکو نے مجھے سیکس کے نئے انداز اور نئے ذائقے متعارف کرائے تھے۔ میں وہی لذت وہی ذائقہ وہی جنون چاہتی تھی لیکن میرے شوہر سے تو ایسا سب ملنا مشکل تھا۔ ان کی شخصیت ہی جُدا تھی اور میں جانتی تھی کے انہیں ان کی شخصیت کے اس خول سے نکالنا آسان نہیں۔
ہمارے گھر ہوئی ڈکیتی کی واردات کو ہوئے تقریباً آٹھ ماہ ہو چُکے تھے۔ پولیس واردات کا سُراغ لگانے میں بالکل ناکام ہو چُکی تھی اور ہم سب بھی قُدرت کا لکھا سمجھ کے بھول چکے تھے۔ زندگی واپس اپنے نارمل شب و روز کی طرف لوٹ آئی تھی۔ میں نے لذت کے حصول کیلئے گندگی کی طرف گرنے کے بجائے پاک صاف زندگی کو ترجیح دی۔ میں کوشش کرتی کے سیکس کے دوران میرے شوہر مجھ سے جارحانہ برتاؤ کریں۔ وہ مجھے نوچیں مجھے مَسلیں اور مجھے کاٹیں وہ میری گانڈ کو سہلانے کے بجائے تھپڑوں سے لال کر دیں اس کیلئے میں مختلف حیلوں بہانوں سے انہیں اُکسانے کی کوشش بھی کرتی لیکن وہ بھی اپنی ڈگر کے پکّے تھے۔ وہ کہتے اتنی ملائم گانڈ کو میں تھپڑ کیسے مار سکتا ہوں۔ ان گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کو میں کیسے کاٹ سکتا ہوں، ان خوبصورت کشمیری سیب جیسے پستانوں کو مسل کر مجھے کیا انہیں خراب کرنا ہے۔ وہ بہت پیار سے میرے ہونٹوں کو چومتے۔ اتنی نرمی سے میرے ممّوں پر ہاتھ پھیرتے کے جیسے اُن کی ذرا سی بے احتیاطی سے یہ کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ وہ میری چوت کو اپنے ہاتھ سے بڑے آرام سے سہلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی ہی وہ اپنی اُنگلی میری چوت میں داخل کرتے تھے۔ ان کا سیکس بس اتنا ہی ہوا کرتا تھا کے ٹانگیں اُٹھائیں لن کو سیدھا کر کے چوت میں ڈالا اور دس پندرہ منٹ کی چُدائی اور پھر باقی رات خراٹے۔ پہلے میں اتنے کو ہی بہت سمجھا کرتی تھی لیکن اب میں جان گئی تھی کے اصل لذت اس سے آگے کی منزل ہے۔
اس دن میری ساس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسی لیئے میں انہیں ڈاکٹر کو دکھانے ہسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ ادویات لکھ کر دیں۔ جنہیں خریدنے کیلئے میں ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہوئی تو کاؤنٹر پر جو شخص کھڑا تھا اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ یہ وہی شخص تھا جس نے مجھے اپنا نام جہانگیر بتایا تھا اور چند ماہ پہلے میرے گھر سے نہ صرف مال و اسباب لوٹ لایا تھا بلکہ میرا سُکھ چین بھی لوٹ لایا تھا۔ وہ بھی ایکدم سے گھبرا گیا۔ اس کا رنگ زرد پڑ گیا لیکن پھر اُس نے خود کو سنبھالا اور بولا " جی میم کیا خدمت کروں آپ کی؟ میں یک ٹُک اس پر نظریں جمائے کھڑی تھی۔ اس نے پھر پوچھا تو میں نے بنا بولے دوائیوں کی پرچی اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ میرے لیئے دوائیاں نکال رہا تھا جبکہ میں اسی کی طرف نظریں جمائے کھڑی رہی۔ وہ بھی چوری چوری نظریں بچا کر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے دوائیاں بیگ میں ڈالیں اور حساب کر کے مجھے پیسوں کا بتایا، وہ سر جھکائے تھا اور مجھ سے نظر نہیں ملا رہا تھا۔ میں نے اسے پیسے ادا کیئے تو اس نے دوائیوں کا بیگ مجھے تھماتے ہوئے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر وہ بھی میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس کا ڈرا سہما اور شرمسار چہرہ مجھے کچھ کہنے یا کرنے سے روک رہا تھا یا پھر میرے اندر کی قوت تھی جو مجھے کوئی بھی قدم اٹھانے سے روک رہی تھی۔ بہرحال جو کچھ بھی تھا میں خاموش رہی اور ادویات کا بیگ اُٹھا کر سٹور سے باہر نکل آئی۔ راستے میں میں نے اُس کی دی ہوئی پرچی کو کھول کے پڑھا جس پر بس اتنا لکھا تھا۔ " آپ کا مُجرم ہوں جو سزا تجویز کریں گی قبول ہے لیکن ایک دفعہ مجھ سے بات کر لیں، نیچے اُس کا فون نمبر تھا۔ میں کشمکش میں تھی کے کیا کروں اس کی اطلاع پولیس کو دوں یا خود اس سے پہلے بات کروں۔ میری اس کے لیئے جو خواہش تھی وہ بھی اسے دیکھتے ہی بیدار ہو گئی تھی۔ میں عجب الجھن میں تھی ایک طرف گھر سے لُوٹی دولت اور دوسری طرف میرا کھویا ہوا سکون۔ میں سوچ رہی تھی کہ کس چیز کو ترجیح دوں میرے لیئے زیادہ اہم کیا ہے دولت یا پھر میرے وجود کی تسکین؟ پھر اس خیال نے مجھے آخری فیصلہ کرنے میں مدد کی کے مال و دولت کیلئے تو سب نے قسمت کا لکھا سمجھ کر خود کو مطمئن کر لیا ہے پر میں اس دن کے بعد آج تک جنسی تسکین نہیں پا سکی اور میرا وجود آج تک مطمئن نہیں ہو پایا۔ یہی سوچ کر میں نے اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کی طرف کی کہانی بھی جان سکوں کے وہ کیا سوچ رہا ہے اور مجھ سے کس برتاؤ کی امید رکھتا ہے۔

2 comments:

  1. Hello Contact Lahore
    I hope so you are fine all Dear members. Beautiful Housewife, Smart Girls, Gorgeous Aunties contact my WhatsApp number 03193812316
    On chat real meeting chat sex romance. But my first porvity your respect 03193812316

    ReplyDelete

  2. اگر کوئی لڑکی انٹی اس سٹوری کو پڑھنے کے بعد ہاٹ گرم ہو گئی ہو جیسے کہ میرا لنڈ بھی کھڑا ہو گیا ہے اگر ویڈیو اڈیو کال پر اپنی پیاس بجھانا چاہتی ہو میرے کھڑے لن کو اپنے چوٹ میں لینا چاہتی ہو اپنی چوٹ پھودی کو چٹوانا چاہتی ہو رابطہ کرے snapchat id @real_boss473

    ReplyDelete