Thursday 15 October 2015

ڈکیت قسط 6

ڈکیت قسط 6

وہ میری تعریفیں کر رہا تھا اور میں دل سے چاہ رہی تھی کے وہ ان تعریفوں کا سلسلہ طویل سے طویل تر کر دے۔ اور وہ ایسے ہی کر رہا تھا۔ میں اس کے کہے لفظوں کے سحر میں ڈوبتی ہی گئی۔ وہ بار بار میری رحمدلی کے ترانے گا رہا تھا ساتھ ہی ساتھ وہ میری خوبصورتی کا ذکر بھی کر رہا تھا۔ میری طرف سے کوئی خاص ردّعمل نہیں تھا میں خود سے اُسے کوئی ایسا اشارہ نہیں دینا چاہتی تھی جس سے وہ سمجھے کہ میں بھی اُس کے ساتھ دوبارہ سیکس کیلئے مری جا رہی ہوں۔ بلکہ میں سوچ رہی تھی کے اُس نے اگر دوبارہ سیکس کی آفر کی تو میں اُسے قبول کرنے سے پہلے ظاہر کروں گی کی میری ایسی کوئی خواہش نہیں۔ لیکن مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے اُس نے کب میری خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ہوئے مجھ سے پوچھ لیا کے اُس کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے مجھے مزہ آیا تھا تو میں نے بھی جواب میں غیر ارادی طور پر کہہ دیا کے بہت مزہ آیا تھا۔ میری خواہش میرے منہ سے نکل چُکی تھی۔ وہ میری کیفیت جان چُکا تھا۔ اسی لیئے اب وہ میرے ممّوں اور چوت کا نام لے لے کر ان کی تعریفیں کر رہا تھا وہ میرے بدن کی نرمی اور گانڈ کی گولائیوں کا ذکر کر رہا تھا۔ اور میرا بدن سنسنانے لگا۔ میرے دماغ میں ایک بار پھر وہ سارا واقعہ گھومنے لگا۔ اُس دن مجھے حاصل ہونے والی لذت میرے جسم میں بس گئی تھی۔ اور اُسی لذت کا احساس وہ مجھے اپنی باتوں سے دلا رہا تھا۔ میں اس کی باتوں کے جال میں اُلجھ گئی اور وہ اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی تھا۔ وہ میری چوت میری گانڈ اور میرے ممّوں کا نام مزے لے کر لے رہا تھا۔ اور میرا جسم سُلگ رہا تھا۔ میں بھی اُسے روک نہیں رہی تھی یہی وجہ تھی کے اُس نے ہمت کر کے مجھ سے پوچھ لیا کے میں دوبارہ اُس سے ملنا چاہوں گی کے نہیں۔ یہ میرے لیئے خلافِ توقع نہیں تھا مجھے اندازہ تھا کے وہ ایسا سوال کرنے ہی والا ہے۔ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، تو اُس نے دوبارہ اسے دُہرایا اور پوچھا کے میں کب اُس سے مل سکتی ہوں۔ میں اُسے کہنا چاہتی تھی کے یہ مُناسب نہیں پر الفاظ نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اور میرے منہ سے نکل گیا دیکھتے ہیں کب موقع ملتا ہے۔ میں خُود حیران تھی کے اُس کیلئے جس نے میرے گھر کی دولت اور عزت کو لُوٹا میرا رویہ انتہائی محبت بھرا اور رحمدلانہ کیوں تھا۔ حالانکہ اُس نے مجھ پر کوئی رحم نہیں کیا تھا جب میں اُس سے رحم کی التجائیں کر رہی تھی۔ اُس نے میرے گڑگڑانے میرے بندھے ہاتھوں اور میرے رونے کی بھی پرواہ نہیں کی تھی ۔ لیکن اُس کیلئے میری بھوک اور میری ہوس نے مجھے ایک بار پھر تھپکی دی کہ اچھا ہی کیا کہ اُس نے میری بات نہیں مانی ورنہ میں ساری زندگی اس حاصل ہونے والی لذت سے محروم رہتی۔ میں آج سوچتی ہوں کے ایسی کتنی خواتین یا مرد ہوں گے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی لن سے یا چوت سے گُذارا کرتے ہیں۔ شائید بہت ہی کم ہوں گے یا شائید کوئی ہو ہی نہ، اگر کوئی ہونگے بھی تو میری طرح وہ بھی یہی سوچتے ہونگے کے جو سیکس وہ کر رہے ہیں اور جو لذت وہ پاتے ہیں وہی سیکس کی انتہا ہے لیکن چونکہ انہوں نے کسی دوسری جگہ سے لذت نہیں پائی تو اسی لیئے وہ اپنے ہی خیال میں پکّے ہونگے۔ ہمارے ہاں عام خیال یہ ہے کے سب ہی لوڑے یا چوتیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں تو ظاہر ہے مزہ اور لذت بھی ایک سی ہی ہو گی۔ لیکن میرے تجربہ میں آیا تھا کہ تقریباً ایک ہی سائز کے دو مختلف مردوں کے لوڑوں سے مجھے حاصل ہونے والی لذت مختلف تھی۔ کیونکہ دونوں کا انداز اپنا تھا۔ ایک طرف آرام اور سکون جبکہ دوسری طرف سنگدلانہ جنون تھا۔ اور دونوں کا مزہ اپنا تھا۔ انسانی فطرت ہے کے جو چیز دسترس میں ہوتی ہے اُس کی نسبت اُس چیز کیلئے انسان زیادہ پاگل ہوتا ہے جو دسترس سے ذرا باہر ہو۔ اور اُسے پا لینے کی خواہش انسان کو ہمیشہ بیقرار رکھتی ہے۔ سکون تب ہی آتا ہے جب انسان اُسے پا لیتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کے انسان کو اُس چیز کی قدر اور ویلیو کا پتہ ہو۔ میری بیقراری بھی فطری تھی اسی لیئے میرے الفاظ میری عام سوچ سے متصادم تھے۔ مجھے جو کرنا چاہیئے تھا میں اُس کے بالکل برعکس کہہ اور کر رہی تھی۔ میرے خیالات اور سوچ کا سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب اُسے کہتے سُنا کے کب تک ہم مل سکتے ہیں۔ وہ بار بار پوچھ رہا تھا۔ اور میں کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔ اس کا بڑھتا اصرار دیکھ کر میں نے کہا کہ میں ایک شادی شُدہ عورت ہوں اور میرا ایک بچہ بھی ہے میرے لیئے آسان نہیں کے میں ابھی تمہارے پاس آجاؤں۔ میں کہہ چُکی ہوں کے جب بھی موقع ملے گا مل لیں گے۔ وہ مجھ سے زیادہ بیقرار تھا۔ لیکن بات اس کی سمجھ میں آگئی تو اس نے ادھر اُدھر کی باتیں کرنی چاہیں تو میں نے معذرت کر لی کے ہماری بات پہلے ہی کافی لمبی ہو گئی ہے اس لیئے بعد میں بات کرنے کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔ وہ سمجھا شائید میں نے ناراض ہو کر فون کاٹا ہے اسی لیئے اُس نے فوراً دوبارہ کال ملا دی۔ میں نے اُسے بتایا کے ناراض نہیں ہوں پر مجھے گھر کے کام بھی کرنے ہیں اس لیئے بات ختم کی ہے۔ اس نے کل دوبارہ بات کرنے کا وعدہ لیا اور فون کاٹ دیا۔
اس سے باتیں کرتے کرتے میرا جسم بہت گرم ہو چُکا تھا۔ حقیقت میں تو میں چاہ رہی تھی کے وہ اسی وقت آجائے۔ لیکن ایسا فی الوقت ممکن نہیں تھا۔ کچن میں کام کرتے ہوئے بھی میرا دھیان اس کی باتوں میں اٹکا رہا۔ میں یہی سوچتی رہی کے کیسے موقع ملے کے میں اُس کے ساتھ کچھ پل گُذار سکوں۔ میرے شوہر دفتر چلے جاتے تھے، دیور اور نند بھی سکول اور کالج چلے جاتے تھے جبکہ سُسر بھی گھر میں کم ٹکتے تھے۔ ایک ساس تھیں جو میرے ساتھ گھر میں ہی رہتیں تھیں لیکن ان کا بھی اڑوس پڑوس جا کر دوسری عورتوں کے ساتھ اکثر بیٹھنا ہوتا تھا۔ میں کام کے دوران منصوبے بناتی رہی کے وقت کیسے نکال سکتی ہوں۔ رات بیڈ پر سوئی تب بھی یہی سوچ رہی تھی کے میری شوہر نے شائید محسوس کر لیا تھا اسی لیئے بولے کن سوچوں میں گُم ہو، تو میں نے بھی بہانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے گھر ڈکیتی ہوئے کتنا ٹائم ہو گیا ہے پر ابھی تک کوئی سُراغ نہیں ملا۔ پتہ نہیں ڈاکو کبھی پکڑے بھی جائیں گے کے نہیں۔ میرے شوہر مجھے سمجھانے لگے کے سب کچھ کسی نہ کسی بہتری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ شُکر ہے کے سب کی زندگیاں محفوظ رہیں۔ دولت کا کیا ہے۔ وہ اور آجائے گی۔ لیکن اگر کسی کی زندگی چلی جاتی تو وہ نقصان یقیناً بڑا ہوتا۔ جو ہوا اس کے بارے میں زیادہ مت سوچو جو ہونے والا ہے اس پر دھیان رکھو، یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا۔ وہ ہاتھوں کو میرے مموں پر پھیرنے لگے اور میرے جلتے بدن میں آگ کے الاؤ دہکنے لگے۔ میں چاہ رہی تھی کے وہ میرے مموں کو مَسلیں اور دانتوں سے کاٹیں وہ میرے پیٹ پر میرے گانڈ پر زور سے چُٹکیاں لیں لیکن وہ ہمیشہ کی طرح بس سہلا رہے تھے۔ میں چاہتی تھی وہ میری چوت کو چاٹ چاٹ کر مجھے ہلکان کر دیں اور اپنے لن کو میرے منہ میں ڈالیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح بس میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کو چوم رہے تھے۔ انہوں نے اپنا ہاتھ میری چوت پر رکھا تو میں اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے زور زور سے چوت پر رگڑنے لگی۔ میں نے اپنے دانتوں سے اُن کے ہونٹوں کو اس وقت کاٹ لیا جب وہ میرے ہونٹ چومنے کیلئے میرے منہ پر جھُکے تھے۔ میں اپنے روّیے سے اُن میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ میں نے اُنہیں اُکسانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کچھ فرق نہ پڑا ، ایک بار تو میں نے خواہش کا اظہار کر بھی دیا تھا کہ میں جارحانہ سیکس چاہتی ہوں لیکن وہ شائید سمجھے نہیں کے سیکس میں جارحیت کیا ہے۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ سیکس کر رہی تھی لیکن لذت کیلئے اس ڈاکو کو ہی سوچ رہی تھی۔ مجھے خیالوں میں ہی اُس کے دانت اپنے پیٹ پر گڑتے محسوس ہوتے۔ میں اس کا کاٹنا اور نوچنا محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے اس کے لن کا رس منہ میں گھُلتا محسوس ہو رہا تھا۔ میرا شوہر میری چوت مار رہا تھا لیکن میرے دماغ پر اُس ڈکیت کا قبضہ تھا۔ جو لذت مجھے اپنے شوہر سے ملتی تھی آج وہ بھی نہیں مل رہی تھی۔ 
اگلے دن بھی میں ابھی کام کاج سے فارغ ہوئی ہی تھی کے اُس کی کال آگئی۔ میں اپنے کمرے میں ہی تھی اسی لیئے پہلی ہی بیل پر فون ریسیو کر لیا۔ میرے بولنے سے پہلے ہی وہ بول پڑا " بڑی بیچینی ہے۔ " کیا مطلب " میں نے بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔ "کچھ نہیں جی، میرا مطلب ہے آپ کو میری کال کا انتظار تھا شائید،" وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔ "ایسی بات نہیں، فون میرے ہاتھ میں تھا اسی لیئے میں نے جلدی ریسیو کر لیا۔" میں نے بھی جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔
" میرے روکھے پن کو اُس نے بھی شائید بھانپ لیا تھا، اسی لیئے وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگا وہ باتوں کے درمیان چُٹکلوں کا سہارا بھی لے رہا تھا۔ جن پر پہلے تو میں صرف مُسکرا رہی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ میری ہنسی بلند ہونے لگی ۔ کچھ دیر بعد جب اُس نے میرے بدلے ہوئے انداز کو محسوس کیا تو وہ ایکدم سے سیدھی بات پر آگیا،" کب تک ملو گی؟ " اس اچانک سوال کی توقع نہیں تھی اسی لیئے میں نے الٹا سوال کر دیا، مطلب...؟ مطلب یہ کے ہم کب مل رہے ہیں ؟ اس نے بھی بلا توقف اپنے سوال کا انداز بدلا.. کل بتاؤں گی, میں شائید کسی سحر کے زیرِ اثر تھی، بنا سوچے اُسے کہہ دیا تھا۔اچھا ہے، تو فون تُم کرو گی یا میں..؟ وہ کسی آقا کی مانند بات کر رہا تھا اور میں زر خرید غلام.. "تُم فون نہیں کرنا میں خود مناسب وقت دیکھ کر رابطہ کر لوں گی" کہنے کو تو میں نے کہہ دیا تھا لیکن آنے والے وقت کیلئے میری کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ فون بند کر کے میں سوچنے لگی کے کیا کروں۔ اندر سے تو میں بھی اُس کی خواہش کر رہی تھی لیکن مجبوری یہ تھی کے وقت کیسے نکلے۔ رات کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تو میری ساس نے بتایا کے وہ دو دن بعد لاہور اپنی بہن کو ملنے جا رہی ہیں میری نند اور سُسر بھی ساتھ جائیں گے۔ اور ہفتہ بھر اُدھر ہی رہیں گے۔ میرے دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ مجھے لگا کے وہ ڈکیت میرے جسم کو گُدگدا رہا ہے۔ میں اُس کے تصور میں کھو گئی وہ تصور ہی تصور میں میرے مموں کو مسل رہا تھا اور میری چوت کو سہلا رہا تھا۔ میں تصور میں اُس کے ہاتھ کا لمس اپنے بدن پر محسوس کر رہی تھی۔ وہ کسی جادوگر کی طرح میرے اعصاب پر سوار تھا۔ اصل میں اُس کیلئے یہ میری اپنی خواہش تھی جو میں اُس کے متعلق یوں سوچ رہی تھی۔ اور مجھے اپنی ان سوچوں پر کوئی پشیمانی نہیں ہو رہی تھی بلکہ میں دل ہی دل میں مسرور ہو رہی تھی۔
اگلی صُبح تمام کام سے فارغ ہو کر میں نے اُسے فون کرکے بتایا کے جلد اُس سے ملنے کیلئے رابطہ کروں گی۔ وہ بات کرنا چاہتا تھا لیکن میں نے مصروفیت کا بہانہ کر کے جلدی فون کاٹ دیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کے اُسے ابھی سب کچھ بتا دوں۔ میں سوچ رہی تھی کے جب ساس سُسر اور نند لاہور کیلئے روانہ ہو جائیں گے تو تب اُس سے ملاقات کیلئے رابطہ کروں گی۔ میں نہیں چاہتی تھی کے ساس اپنے لاہور جانے کا پروگرام ملتوی کر دے اور ہمیں کوئی بدمزگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اگلے دن جب میرے شوہر کام کیلئے چلے گئے اور ساس سُسر نے بھی لاہور کی راہ لی تو میں نے بھی جلدی جلدی کام ختم کیا اور اور ڈکیت کو فون لگا دیا۔ میں اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جو خواہش دل میں کسک بن چُکی تھی اُس کے پورا ہونے کا وقت اب دور نہیں تھا۔ میں جانتی تھی کے شام پانچ بجے تک گھر میں میرے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے

3 comments:

  1. Ager koi girl ya aunty ya housewife mujh se apni felling share karna chahti hai.ya
    Good Friendship Love and Romantic Chat Phone sex Ya
    Real sex karna chahti hai to contact kar sakti 03499305654 jo barosa kr saky wo rabta krain

    ReplyDelete
  2. Kio b girl ya house wife real mai ya cl msg pr sexx enjoy krna chahti he to is number pr barosa k sath rabta kr skti jo b bbat hogi mukml razdari k sath hogi ar jo barosa kry rabta kry 03104878920 only whtsup

    ReplyDelete
  3. Hello Contact Lahore
    I hope so you are fine all Dear members. Beautiful Housewife, Smart Girls, Gorgeous Aunties contact my WhatsApp number 03193812316
    On chat real meeting chat sex romance. But my first porvity your respect 03193812316

    ReplyDelete